بنیادپرستی کیا ہے؟

   

رام پنیانی
سارے جنوبی ایشیا اور کئی مغربی ایشیائی ملکوں میں کٹرپسندی مائل بہ عروج ہے۔ یہ کہیں کہیں اقتدار میں ہے، جبکہ بعض ملکوں میں یہ بھلے ہی برسراقتدار نہیں لیکن سیاسی ایجنڈے کی سمت طے کرنے میں اس کا کنٹرول یا اثر رہتا ہے۔ ہندوستان میں آر ایس ایس گزشتہ چند دہوں سے اپنے غلبہ میں اضافہ کرتا آیا ہے اور موجودہ طور پر اس کا ’سیاسی روپ‘ بی جے پی ملک پر حکمرانی کررہی ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو کسی بھی مذہب کو اس طرح کے رجحان کی اساس بنایا جاسکتا ہے۔ آر ایس ایس اتحاد بنیادپرستی اور فسطائیت دونوں کی خصوصیات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بنیاد پرستی کو اکثروبیشتر مذاہب کی بنیادی باتوں کی طرف پلٹنے کے رجحان کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سماجی رجحان کے طور پر یہ اس اصطلاح کے مکمل معنی کو پیش نہیں کرتا ہے۔ وسیع تر مفہوم میں یہ اصطلاح ان مذہبی تحریکات کا اشارہ دیتی ہے جو اپنے نظریات اٹل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور معتقدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مقدس کتب میں شامل مذہب کے اُصولوں کو حرفی طور پر قبول کریں، جیسا کہ وہ تشریح کریں۔ بنیادپرستی منطقی توضیح و تشریح کی کوششوں کو مسترد کردیتی ہے اور دلیل پر مبنی مباحث کے مقابل اندھی عقیدت کو ترجیح دیتی ہے۔ اس کا تقاضہ ہوتا ہے کہ تمام روایتی مذہبی ہدایات پر بلاچوں و چراں، سختی سے کاربند رہیں۔ اس معاملے میں تین بنیادی رجحانات ہیں۔
’’اول، بنیادپرستانہ افکار یقینی طور پر سیاسی ہوتے ہیں۔ دوم، بنیادپرستانہ تحریکات واقعی طور پر مذہبی بھی ہوتے ہیں: ’اگر ہم ان تحریکات کے ناقابل یقین مذہبی پہلو کو نظرانداز کرتے ہیں تو ہم ان کو سمجھنے میں ناکام ہوں گے‘۔ سوم، بنیادپرستانہ افکار سیاسی یا سماجی تناظر میں حاکمانہ اور مخالف تکثیریت تحریکات ہوتے ہیں جو متضاد تقاضوں کی وجہ سے اپنے اثر میں محدود ہوتی ہیں۔ یہ تقاضے اپنی دوہری شناخت یعنی پوشیدہ طور پر مذہبی اور مخفی طور پر سیاسی اثر کے ذریعے ان پر مسلط کئے جاتے ہیں۔‘‘ ایک طرح سے بنیادپرستی مفوضہ، سامراجی مفادات کے سماج کی حکمت عملی ہے، جو مساوات کے تئیں سماجی بدلاؤ کی مخالفت میں کھڑا ہوتا ہے۔ یہ کام مقدس تحریروں یا مذہبی روایات سے اخذ کردہ نظریات کے احیاء کی شکل میں ہوتا ہے، جسے وہ سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کے مخالف کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ ان تبدیلیوں کی مبینہ طور پر مظلوم مذہبی برادری کے عقیدے کا دفاع کرنے کے نام پر مخالفت کرتے ہیں، جس کی شناخت کو اُن کے مطابق خطرہ درپیش ہے۔ اس شناخت کے تحفظ کی خاطر گزرے زمانے کے سماجی اُصولوں کو دوبارہ لاگو کرتے ہیں۔ اس معاملے میں نظریات کو واپس لانا بہت خصوصیت سے ہوتا ہے۔ ان ’بنیادپرستوں‘ کی اُن کی سماجی حالت کے مطابق ازسرنو تشریح کی جاتی ہے۔ لازماً اس عمل کا مقصد نئے سماجی اقدار کا دفاع کرنا ہوتا ہے، ایسے اقدار جو جمہوری ہیں اور جو سماجی درجہ بندی کے جوں کا توں موقف کیلئے خطرہ بنتے ہیں۔ اور یہ سب بہتر اثر کیلئے مذہبی زبان میں کیا جاتا ہے۔اس کا ارادہ قدیم روایات اور طرز زندگی کے مصنوعی نفاذ کا نہیں ہوتا، اور نا ہی اس کا مقصد بس ماضی ٔ مقدس کے سنہرے دور کی طرف واپسی کا ہوتا ہے۔ اس کی بجائے مذہبی شناخت ایسی تجدید کے بعد ایسے ازسرنو تیار کئے گئے سیاسی اور سماجی نظم کیلئے خاص اور قطعی اساس بن جاتا ہے، جس کا جھکاؤ ماضی کی بجائے مستقبل کی طرف رہتا ہے۔ روایت اور جدیدیت کے عنصروں کو منتخب کرتے ہوئے بنیادپرست عناصر اس دنیا کو دوہرے عہد کی تکمیل میں ازسروضع کرنے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ دوہرے عہد وقوع پذیر مِعادیاتی ڈرامہ (تمام چیزوں کو پھر سے خدا کے آگے سپرد کردینا) اور خود کے تحفظ (دوسروں کو دھمکاتے ہوئے اپنے خطرے کو بے اثر کرنا) سے متعلق ہیں۔ بنیادپرست عناصر سیاسی زندگی سے جڑے ہوتے ہیں حتیٰ کہ تب بھی جب وہ سکیولر سوسائٹی سے اپنی علحدگی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جدیدکاری، ترقی، سیاسی ڈھانچہ وغیرہ سے متعلق امور میں حصہ لیتے ہیں!
مختصر تاریخ : لہٰذا، یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی تحریک جو سماج کے فراخدلانہ اقدار کو نشانہ بناتی ہے، جو سماج کی طاقت کے خلاف کام کرتی ہے، غیردرجہ بند رشتوں، مساوات کے رشتے کی طرف پیشرفت کرتی ہے۔ یہ ماقبل صنعتی دور کے قدامت پسند اقدار کی رجعت کا نفاذ ہے، جسے مذہب کی شناخت کے نام پر مذہبی کتب یا طریقوں سے چن چن کر نکال دیا گیا۔ یہ بات اس حقیقت کو دباتی ہے کہ بین مذاہب کوئی ہم نوعی نہیں ہے، اور مفادِ حاصلہ کیلئے مناسب مذہبی چربہ بناتی ہے۔ مختلف بنیادپرستانہ افکار کے درمیان ظاہری اختلاف کے باوجود وہ بنیادی عقیدوں میں یکساں ہیں، اور ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ خدائی قانون کی اساس پر صرف واحد سچا عقیدہ ہے۔ تمام بنیادپرستانہ افکار تکثیریت سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ یہ رجحان اس کی کشش کی شدت کو بڑھاتا ہے؛ یہ داخلی قیاسی یا حقیقی دشمن کے خلاف جنون پیدا کرتا ہے۔ سعودی عرب میں اس کا نشانہ خواتین ہیں؛ ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانے پر رکھا گیا ہے؛ ایران میں سابق حکمراں رضا شاہ کو دوسروں کی غلطیوں پر نشانہ بنایا گیا۔ اس کا ماضی کی تصویر پیش کرنا فریب ہے جبکہ جو کچھ تقاضہ کیا جارہا ہے عصری عمل کا نہج ہے۔

یہ اصطلاح سب سے پہلے جدید Protestantism (اصلاحی مذہب) میں قدامت پسند رجحان کی نشاندہی کیلئے استعمال کی گئی، جو عیسائیت میں مذہبی جدیدیت اور آزادانہ روِش کے پھیلاؤ پر پہلی جنگ عظیم سے عین قبل شمالی امریکا میں اُبھرا 1910ء کے بعد اس رجحان کو بنیادپرستی کہا جانے لگا۔ اس کے ماننے والوں نے روایتی عیسائی قاعدہ پر زیادہ طاقتور بھروسہ کا مطالبہ کیا اور بالخصوص بائبل کی شبہ سے عاری بے خطائی پر کامل یقین رکھنا۔ ان اعتقادات اور رواجوں کا پوری انیسویں صدی کے دوران امریکا میں وسیع تر تبادلہ کیا گیا۔ اس رجحان کے معتقدین نے خود اپنے اداروں کے ذریعے اور قوم کے مکاتب فکر کے ذریعے جدوجہد شروع کردی۔ انھوں نے چرچس میں مذہبی فراخ دلی اور اسکولوں میں ارتقاء کی تعلیمات کے خلاف مہمات کا اہتمام کیا۔ لیکن وہ اس لڑائی میں ہار گئے اور معقولیت کی جدید آوازیں جیت گئیں۔ اپنی شکست سے قطع نظر انھوں نے اپنے خیالات کے پھیلاؤ کیلئے زبردست ادارہ جاتی ڈھانچہ بنا لیا۔ اسلامی ممالک میں اس کا مظاہرہ آیت اللہ خمینی کے اُبھرنے سے ہوا، جو امریکی کٹھ پتلی رضا شاہ پہلوی کی غلط حکمرانی کے سبب اقتدار تک پہنچ سکے۔ موجودہ طور پر بعض ممالک اس طرح کی تحریک کی پوری طرح گرفت میں ہیں، جبکہ بعض دیگر سرکاری سرپرستی میں اسلامی احیاء اور شریعت پر جزوی عمل آوری کے ذریعے سیاسی اور سماجی سسٹم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ روِش ظاہر ہونے لگی ہے اور ’حدود آرڈیننس‘ اس رجحان کا ایک نمونہ ہے۔ یہ آرڈیننس زنا اور عصمت دری پر حد جاری کرتا ہے، اور دونوں کے درمیان فرق کو ختم کردیا گیا ہے۔ اس نے قانونِ گواہی لایا ہے جس کے ذریعے عورت کی گواہی کی وقعت کو گھٹا کر مرد کی گواہی کا نصف کیا گیا ہے۔ ہندو بنیادپرستی 1980ء کے دہے سے زیادہ جارحانہ بنتی گئی ہے۔

خلاصہ: بنیادپرستی کئی ملکوں میں جمہوریت کیلئے سنگین چیلنج ہے۔ ان میں سے کئی ممالک وہ ہیں جو یا تو کالونیاں رہے یا آمرانہ حکمرانی کے تحت تھے۔ یہ مذہب کے لبادے میں سیاست ہے۔ یہ جمہوری اقدار کو، سکیولرازم اور مساوات کی قدروں کو مغربی قرار دیتی ہے۔ اس کا مقصد پیدائش پر مبنی درجاتِ ذات کے اقدار کو عصری زبان میں جاری رکھنا یا بڑھاوا دینا ہے۔ اُس مذہب سے قطع نظر جس کے نام پر یہ مسلط ہونا چاہتے ہیں، یہ یکساں قبیل کے ہیں اور اپنی سیاست میں یک نوعی ہیں، مذہب کی کوئی مخصوص تشریح کو منتخب کرتے ہوئے اُسے اُس مذہب کی اصل تشریح کے طور پر مسلط کرتے ہیں۔ یہ دیگر مذاہب یا خود درونِ مذہب کے لوگوں کو نشانہ بناتی ہے جن پر یہ مذہب پر درست طریقے سے عمل نہ کرنے کا ٹھپہ لگاتی ہے۔ یہ زیادہ تر جذبات سے کھیلتی ہے اور سماج کی مادی ترقی اس کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ یہ آمرانہ حکمرانی مسلط کرنے یا جمہوری آزادیوں کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مذہب کے اُصول اخلاقیات اور شناختی مسائل پر حد سے زیادہ توجہ دینے میں فرق کرنے کی ضرورت ضروری ہوجاتی ہے۔ جمہوریت کو ایک قدر کی حیثیت سے ضرور اس قسم کی سیاست کی گرفت سے نکالنا چاہئے، جو مذہب کی آڑ میں کام کرتی ہے۔
ram.puniyani@gmail.com