بچا ہوا کھانا اور …

   

محمد ریاض احمد
ساری ریاست ، سارے شہر میں اس مدرسہ کی ایک خاص پہچان ہے اور اس کے معیار تعلیم کی مثالیں دی جاتی ہیں چونکہ دینی مدارس دین کے مضبوط قلعے ہوتے ہیں، اس لئے اس مدرسہ کو بھی دین کے ایک مضبوط ترین قلعہ کی حیثیت حاصل ہے۔ وہاں پڑھنے اور پڑھانے والوں دونوں کو معاشرہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس مدرسہ میں جہاں متمول خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بچے دینی علم حاصل کرتے ہیں، وہیں متوسط اور غریب خاندانوں کے بچے بھی اپنے اذہان و قلوب میں قرآن مجید کو محفوظ کرتے ہیں۔ مدرسہ میں طلبہ کے قیام و طعام کی بھی سہولت ہے اور عام اسکولوں کی طرح صبح تا سہ پہر طلبہ کیلئے تعلیم کا بندوبست ہے۔ بہرحال مدرسہ کی پرفضاء وسیع و عریض عمارت ،احاطہ میں موجود خوبصورت مسجد، اساتذہ کے کوارٹرس مدرسہ کا کشادہ مطبخ (باورچی خانہ) ، سرسبز و شاداب نورانی ماحول دیکھنے والے کو متاثر کئے بناء نہیں رکھتا۔ مدرسہ کا باب الداخلہ بھی اپنے آپ میں ایک خاص کشش رکھتا ہے۔ بہرحال دوپہر کا وقت ہے۔ ایک ڈی سی ایم مدرسہ کے باب الداخلہ پر آکر رُکتی ہے۔ ڈرائیور مسلسل ہارن بجائے جارہا ہے۔ باب الداخلہ کے متصل واچ مین کا کمرہ ہے۔ وہ آگے بڑھ کر دروازہ کھولتے ہیں۔ مدرسہ میں ڈی سی ایم کے داخل ہوتے ہیں فضاء میں ایک عجیب قسم کی خوشبو پھیل گئی۔ مدرسہ کے وسیع و عریض میدان میں گاڑی کے رکتے ہی اس سے صاف ستھرے اور قیمتی لباس میں ملبوس ایک نوجوان اور ادھیڑ عمر کا شخص کود پڑے اور دریافت کرنے لگے کہ یہاں ذمہ دار کون ہیں۔ واچ مین نے مسجد کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے آگے بڑھنے والے مولانا کی جانب اشارہ کیا۔ مولانا دراصل مدرسہ کے صدر مدرس تھے۔ انہوں نے آگے برھ کر خندہ پیشانی سے ڈی سی ایم میں آئے دونوں افراد کا استقبال کیا اور پھر ان کے مدرسہ آنے کی وجہ دریافت کی جس پر ادھیڑ عمر کے شخص نے بتایا کہ گاڑی میں لذیذ دو گوشتہ بریانی، زعفرانی بریانی، کاجو رائس، دوچار قسم کے میٹھے، دہی کی چٹنی، بیگن کا سالن، مچھلی مرغ غرض انواع و اقسام کے کھانے موجود ہیں اور خاص طور پر وہ مدرسہ لائے ہیں تاکہ غریب طلباء کو اس طرح کی لذیذ ڈشیس سے محظوظ ہونے کا موقع ملے۔ مولانا اس شخص کی باتیں بڑی خاموشی سے سنتے رہے۔ لمحہ لمحہ ان کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوتے جارہے تھے۔ وہ شخصی مسلسل بولے جارہا تھا۔ اس کے لب و لہجہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اس مدرسہ اور طلباء پر احسان کررہا ہے۔ اس دوران مولانا سے بات چیت کرنے والے شخص نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کل ہمارے گھر شادی کی تقریب تھی، دو ہزار مہمانوں کیلئے انواع و اقسام کی ڈشیس تیار کی گئیں لیکن توقع کے برعکس صرف 900 مہمان ہی آئے جس سے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ بچا ہوا کھانا آخر کسے دیا جائے؟ کچھ کھانا سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھوں اور گندی بستیوں میں رہنے والوں میں تقسیم کیا گیا۔ اچانک ایک صاحب نے یہ کہتے ہوئے یہ کھانے کسی مدرسہ تک پہنچانے کا مشورہ دیا کہ مدرسوں میں غریب بچے دینی علم حاصل کرتے ہیں۔ ایسے کھانے انہیں بار بار نہیں ملتے۔ وہ کھائیں گے تو آپ کو اس نیک کام کا ثواب بھی ملے گا اور کھانا ضائع ہونے سے بھی بچ جائے گا۔ بڑے پرسکون انداز سے اس شخص کی گفتگو سننے والے مولانا کا چہرہ غصہ کے مارے سرخ ہوگیا اور انتہائی سخت لہجہ میں انہوں نے ڈی سی ایم میں کھانوں کا انبار لئے پہنچے ان دونوں افراد سے جو کچھ کہا، اسے سن کر ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں ۔ ان سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ زبانوں پر تالے پڑگئے ہوں۔ الفاظ زبان کا ساتھ دینے سے صاف انکار کررہے ہوں اور ان کے قدم شرم کے مارے زمین میں دھنس گئے ہوں۔ دونوں کی حالت عجیب سی ہوگئی تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ان کے جسموں سے سارا خون نکال لیا گیا ہو۔ دراصل مولانا نے انہیں اس بات کا احساس دلایا تھا کہ مدرسہ کے بچے غریب اور بھوکے نہیں ہوتے بلکہ ان سے بڑھ کر دولت مند اور کوئی نہیں ہوتا کیونکہ وہ علم دین حاصل کرتے ہیں۔ قرآن پاک کے ایک ایک لفظ ایک ایک نقطہ کو اپنے سینوں میں محفوظ کرتے ہیں۔ ان کی زبانیں ہمیشہ ذکر ِالہٰی سے تر رہتی ہیں۔ بار بار اپنے پیارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتی ہیں۔ وہ اپنے ہر عمل میں آداب ِاِسلامی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے چلنے پھرنے، بات کرنے ، مسکرانے غرض ہر ہر چیز میں سنت ِ نبویؐ کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ جب یہ اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپؐ کے پسندیدہ سفید رنگ کے لباس میں ملبوس اپنے اساتذہ کے سامنے قرآن مجید اور احادیث کی کتب لئے بیٹھے سبق حاصل کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ فرشتوں کی جماعت زمین پر اتر آئی ہو۔ ان بچوں کے نورانی چہرے ان چہروں پر پایا جانے والا سکون و اطمینان شاید ہی عام لوگوں کے چہروں پر دیکھنے کو نہ ملے۔ صدر مدرس نے ڈی سی ایم میں آئے ان لوگوں کو یہ بھی احساس دلایا کہ دینی مدرسہ میں زیور علم سے آراستہ ہونے والے یہ بچے کوئی عام بچے نہیں ہیں۔ بارگاہ رب العزت میں ان کا جو درجہ ہے، اس کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ عز و جل نے مدرسہ کے ان بچوں کیلئے جو انعامات رکھے ہیں، ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ محسن انسانیتؐ کی ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ علم دین حاصل کرنے کیلئے جب طلبہ گھروں سے نکلتے ہیں تو فرشتے اُن کی راہوں میں پَر بچھا دیتے ہیں ۔اس سے دینی مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ ان کیلئے فرشتے بھی اپنے پَر بچھا دیتے ہیں اور ہم ہیں کہ ان بچوں کو ایک طرح سے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مدرسہ کے صدر مدرس دونوں کو مسلسل دینی مدارس اور مدارس کے طلبہ کی اہمیت و فوقیت سے واقف کرواتے جارہے تھے۔ وہ سکتہ کے عالم میں صدر مدرس کے ایک ایک لفظ کو سنتے جارہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے الفاظ دونوں پر ہتھوڑے بن کر برس رہے ہوں۔ اس دوران ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب صدر مدرس نے دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کر مدرسہ کے کشادہ مطبخ میں لے گئے جہاں چولہوں پر کئی دیگیں چڑھی ہوئی تھیں۔ انتہائی صاف ستھرے چند لوگ وہاں پکوان میں مصروف تھے۔ صدر مدرس نے اس پکوان کی جانب اشارہ کرکے بتایا کہ ہم اپنے بچوں کو تازہ تازہ اور گرم گرم کھانا کھلاتے ہیں کیونکہ یہ بچے ایسے ہی تازہ کھانوں کے مستحق ہیں۔ بچے کچے اور ضائع ہونے کے خطرے سے پھینکے جانے والے کھانے کے نہیں ۔ مدرسے کے اقامت خانوں میں رہنے والے طلباء دنیاوی لحاظ سے غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہوں گے لیکن دینی لحاظ سے ان کے درجات کافی بلند ہوتے ہیں اور جن کا دنیا کا کوئی دولت مند یا اس کی دولت مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ ایک ایسا بھی لمحہ آیا جب مدرسہ کے صدر مدرس نے کھانے لائے ان دونوں حضرات کو یہ کہتے ہوئے بھی جھنجھوڑ دیا کہ آخر ہم لوگ مدرسوں کے بچوں کو حقیر کیوں سمجھتے ہیں؟ حفاظ کو معاشرہ میں وہ مقام و مرتبہ کیوں نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ائمہ و موذنین کی عزت و احترام کیوں نہیں کرتے حالانکہ وہ آپ کو کامیابی کی طرف بلاتے ہیں۔ آپ کی امامت کرتے ہیں۔ مساجد میں آپ کے بچوں کو دینی علم سے آراستہ کرتے ہیں۔ سجاتے ہیں، سنوارتے ہیں۔ حقیقت میں انہیں مسلمان بناتے ہیں۔ پھر بھی ہم کبھی مسجد کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے تو کبھی مسجد کمیٹی کے سیکریٹری اور رکن کی حیثیت سے انہیں ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان سے گالی گلوج بھی کرتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ان کے پاکیزہ و نورانی چہروں پر طمانچے بھی رسید کردیتے ہیں جو دراصل خود کے جہنم رسید ہونے کی علامت ہوتی ہے۔ ہم لوگوں نے دینی مدارس کے طلباء، اساتذہ، ان کے سفیروں، نمائندوں، ائمہ و موذنین کو رسواء کرنا اپنی عادت بنالی ہے جو صرف اور صرف ہماری بدقسمتی ہے۔ معاشرہ کا یہ حال ہوگیا کہ انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی آپریٹرس کو ماہانہ بلاکسی چوں و چرا ہزاروں روپئے ادا کردیتے ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ رقم کی عدم ادائیگی پر انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی کنکشن کاٹ دیا جائے گا لیکن جب مسجد یا مدرسہ کیلئے نذرانہ (اسے نذرانہ ہی کہنا چاہئے کیونکہ کسی انسان کی حیثیت نہیں کہ اللہ کے گھر یعنی مسجد کو چندہ دے) دینے کی بات آتی ہے تو گھر کے دروازے پر آنے والے نمائندہ کو کافی دیر تک انتظار کروانے کے بعد معمولی رقم دے کر ایسا ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہم نے مسجد کیلئے ’’چندہ‘‘ دے کر بہت بڑا احسان کیا حالانکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ اس مسجد ہماری نماز جنازہ کی ادائیگی سے انکار کردیا جائے تو ہمارا کیا حال ہوگا۔ اس وقت ہمارا کیا ہوگا جب ہمارا اپنے رب سے اپنے دین سے کنکشن کٹ جائے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری کوئی حیثیت نہیں، انا میں فنا ہے اور فنا میں بقاء ہے اور ہم اپنے بچوں کیلئے میاتھس (ریاضی)، فزکس (طبیعیات) اور کیمسٹری (کیمیاء) کے ٹیوشن پر ہزاروں روپئے خرچ کردیتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے والے مولوی صاحب کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ صدر مدرس کی باتوں سے ڈی سی ایم میں انواع و اقسام کے کھانے لائے دونوں افراد کافی شرمندہ ہوئے۔ صدر مدرس نے یہ کہہ کر بھی انہیں واپس جانے کیلئے مجبور کردیا کہ مدرسہ میں سادات بچے بھی ہوتے ہیں، کیا آپ انہیں صدقہ کھلاؤگے، ان کی خاطر تواضع ضائع شدہ کھانوں سے کروگے؟ یہ سمجھنا کہ بچے ہوئے کھانوں کے مسحق یہ مدرسہ کے طلباء ہیں انتہائی بے خوفی اور گستاخی ہے۔ کیا سپاہیوں کو کوئی باسی نوالے دے گا؟ ہرگز نہیں تو دینی مدارس کے طلباء جو دین کے سپاہی ہوتے ہیں، ان کیلئے بچا ہوا کھانا کیوں ؟ صدر مدرس کی یہ گفتگو سن کر وہ دونوں اپنے بوجھل قدم آگے بڑھاتے ہوئے آگے بڑھے اور ڈی سی ایم میں بیٹھ کر جس سمت سے آئے تھے، اس سمت روانہ ہوگئے۔ ٭
mriyaz2002@yahoo.com