’’بہاریں یوں بھی آتی ہیں‘‘

   

خیرالنساء علیم
ثاقب اور شفق کی شادی کو ہوئے تقریباً 10 سال ہونے والے تھے ۔ دونوں کی مثالی جوڑی تھی ۔ لوگ دونوں کی محبت کی مثال دیا کرتے تھے ۔ مگر ان 10 سالوں میں ان کی زندگی میں کمی تھی تو بس اولاد کی ۔ مگر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے دونوں کو ہی اس بات کی فکر نہیں۔ شفق نے تو ہزار بار سوچا دنیا میں شائد کوئی بھی ان دونوں جیسی محبت نہیں کرسکے گا۔ کوئی بھی نہیں … اسی لئے تو اسے ساس کی باتیں طنز کے نشتر لوگوں کی نظریں اور زندگی کا سونا پن سب کچھ کوئی معنی نہیں رکھتا تھا ۔ ثاقب کی محبت تو سب سے اہم تھی ۔ مانسون کے آنے جانے جیسی اہم ، دل کی دھڑکنوں جیسی ضروری ۔ کئی ایک بار اس نے ثاقب کے بغیر خود کو تصور کر کے دیکھا تو اسے لگا …
’’تجھے نکال کے دیکھا تو سب خسارا لگا ‘‘ …’’شفق… شفق … کدھر گم ہوجاتی ہو‘‘ ۔ ثاقب آوازیں دیتا ہوا کمرے سے باہر آیا اور سامنے بیٹھی امی جان کو دیکھ کر مسکراتا ہوا ان کے قریب تخت پر بیٹھ گیا۔ وہ بری طرح تپی بیٹھی تھیں۔ ’’شفق کی محبت میں اندھا ہوگیا ہے … میں مانتی ہوں تم دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہو۔ مگر بیٹا اولاد کی بہت اہمیت ہوتی ہے … آج تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہے ۔ کل کو بہت پچھتاؤ گے‘‘ …
اب تو یہ روز کا معمول بن گیا تھا … کبھی امی جان اور کبھی ثاقب کی بہنیں سمجھانے چلی آتی تھیں۔ ’’وہ سب بھی اپنی جگہ پر ٹھیک ہی سوچتی تھیں… مگر میں کیا کروں … میرے بس میں تو کچھ بھی نہیں ہے ناں … بس انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے ۔ جتنا ملے اتنا کم پڑجاتا ہے ۔
کہیں ایک روٹی کے بارہ ٹکڑے ہوتے ہیں ۔ یہاں میں اور ثاقب اولاد کے لئے تڑپ رہے ہیں‘‘ ۔ شفق نے پردہ ہٹاکر آسمان کی طرف دیکھا…’’ثاقب ! تمہیں اپنی بوڑھی ماں کی خواہش اپنے خاندان کے نام نسب کسی چیز کا خیال نہیں کل کو کون تمہارا سہارا بنے گا‘‘ ۔ وہ بولتی چلی گئیں ۔ شفق سر جھکائے مجرموں کی طرح کھڑی تھی … ثاقب غصے سے تنتناتا ہوا اٹھا اور باہر نکل گیا۔ ’’ثاقب دوسری شادی کرنا اتنی معیوب بات بھی نہیں جتنا تم سمجھتے ہو‘‘ … بڑی باجی کے ان خیالات کو اچھی طرح سمجھتا تھا … سو وہ ا ٹھ کر جانے لگا تو ماں نے روک لیا ۔ ’’اچھی بات ہے ثاقب دوسری شادی کا مسئلہ بعد کا ہے، پہلے اسے کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک اپ تو کرواؤ … میں تو کہتے کہتے کئی سال گزر گئے ۔ تم دونوں میاں بیوی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب سال دو سال میں کوئی نتیجہ سامنے آنا چاہئے ۔ ورنہ ہم سب کو ہی بہت پچھتانا پڑے گا ۔ ڈاکٹر کی رائے کے بعد ہم صبر کرلیں گے ثاقب … میرے بیٹے سمجھنے کی کوشش کر‘‘ ۔
’’امی جان !! سوری باجی !! آپ فضول میں بحث کر رہی ہیں … میں اللہ کی مرضی کو مقدم مانتا ہوں‘‘ … اس سے ان سب کی باتیں ناقابل برداشت ہوگئیں تو وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا ۔ شفق آنکھوں میں آنسو لئے کھڑی تھی ۔ ثاقب اس سے آنکھ نہیں ملا پارہا تھا ۔ ’’ثاقب میرا ڈاکٹر کے پاس جانا مسئلہ کا حل ہوتا تو میں بہت سال پہلے ہی چلی جاتی ‘‘… وہ اس کے کندھے سے سر ٹکاکر سسک پڑی۔ ’’ تو تم جانتی ہو کہ‘‘ … وہ اپنا فقرہ پورا نہ کرسکا …
’’ہاں ثاقب میں جانتی ہوں … شادی کے کچھ دن بعد ہی جب ہم بنگلور جارہے تھے تب بس کا جو ایکسڈنٹ ہوا تھا جس میں آپ شدید زخمی ہوگئے تھے … تبھی ڈاکٹر نے مجھے بتایا تھا کہ اب کبھی ہم ماں باپ نہیں بن سکتے … تمہاری کچھ اندرونی چوٹوں کی وجہ سے ڈاکٹر بالکل ناامید ہوگئے تھے ۔ تمہاری بے ہوشی ٹوٹ ہی نہیں رہی تھی ۔ میں تو تمہاری زندگی کی دعائیں مانگ رہی تھی … تمہارے بغیر جینے کا تصور ہی میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ رہا تھا ‘‘ … وہ بولتے بولتے رونے لگی …
’’تو تم نے امی اور بہنوں کو ‘‘ … اب وہ اپنی بیوی سے آنکھ نہیں ملا پارہا تھا …’’نہیں ثاقب !! تم زندہ ہو … ہر لمحہ میرے ساتھ ہو … میری زندگی کی تکمیل اور روشنی بن کر … مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہئے تھا ۔ میں نے اللہ سے صرف تمہاری زندگی کی بھیک ہی تو مانگی تھی جو میرے مالک نے میری جھولی میں ڈال دی ‘‘ … ثاقب نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا ۔ اس کے ٹھنڈے یخ بستہ ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر کہنے لگا ، ’’شفق تم اتنے برسوں تک میری ماں اور بہنوں کی سارے زمانے کی باتیں سنتی رہیں خود کو بانجھ کہلاتی رہیں ۔ یہ کسی سے نہ کہا کہ ہمارے آنگن کی ویرانی تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ میری وجہ سے ہے ۔ لعنت ہے میری بزدلی پر نہ میں نے تمہیں کچھ بتانے کی ہمت کی اور نہ ہی دنیا والوں کو تمہیں طعنے دینے سے روک سکا ‘‘ … ثاقب پچھتاؤں میں گھرا تھا ۔
شفق نے اسے محبت سے گھور کر دیکھا… ’’مجھے کبھی ڈر نہیں رہا … ثاقب کبھی بھی محسوس نہیں ہوا کہ اتنی بڑی کمزوری ہوگئی ہے تمہارے اندر … میں تو ہمیشہ تمہاری ہمت بن کر رہنا چاہتی تھی اور یہ ثابت کردی کہ عورت زیادہ بہادر اور وفادار ہے‘‘ … اس کے لبوں پر ہمیشہ کی طرح نرم سی مسکراہٹ پھیلی تھی… ’’شفق میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں سب لوگوں کو کیا کہہ کر خاموش کراؤں‘‘… ’’میرے پاس اس مسئلہ کا ایک خوبصورت حل ہے مگر آپ کو بہادر بننا پڑے گا ‘‘ … وہ حیران نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا…’’شفق ! تم بہت خوبصورت بولتی ہو ۔ اثر انداز الفاظ ہوتے ہیں … مان لیا … مگر صاف کہو جو کہنا ہے ‘‘ …
’’کچھ دن پہلے ہی ہم نے ٹی وی میں دیکھا تھا کہ کسی میٹرنٹی ہاسپٹل کی بلڈنگ ناقص اشیاء استعمال کرنے کی وجہ سے 6 مہینوں میں ہی زمین بوس ہوگئی تھی ۔ ہاسپٹل کا وہ حصہ جہاں نو زائدہ بچوں کی نگہداشت کے لئے رکھا جاتا ہے ، کسی طور بچ گیا تھا ۔ کئی مائیں اس حادثے میں جاں بحق ہوگئی تھیں… حکومت کی طرف سے بار بار اعلان ہورہا تھا کہ صاحب استطاعت لوگ بچوں کو اپنالیں (گود لیں) کرلیں … میں اسی وقت آپ سے کہنا چاہتی تھی۔ مگر ہمت نہ کرسکی ۔ ہماری زندگی کی اس کمی میں شائد اللہ کی کوئی مصلحت چھپی ہو۔ آج ہم ان بے سہارا بچوں کا سہارا بن جائیں تو کل وہ ہمارا سہارا بنیں گے ۔ شائد ہمارے اپنے بچوں سے بھی زیادہ وفادار اور محبت دینے والے ہوں‘‘۔ ثاقب کے ہاتھوں پر شفق کے ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی تھی ۔’’شفق تم بھی میرے لئے قدرت کی طرف سے عطا کردہ ایک انمول تحفہ ہو۔ تمہاری ہر بات ہر سوچ کس قدر سچی اور کھری ہے… نور ہی نور، نور سے معمور … دیکھو تو آگے بڑھنے کا ہر راستہ صاف ہوجاتا ہے نئی پگڈنڈیاں بن جاتی ہیں‘‘۔
’’تو چلیں‘‘ !! وہ بے ساختہ اٹھی… اس نے ثاقب کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا ۔ ’’شفق میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔ میرے قدم تمہارے قدم کے ساتھ اٹھتے رہیں گے ۔ اب ہماری زندگی میں کوئی کمی نہیں رہے گی‘‘۔ ثاقب نے فیصلہ کر ہی لیا ۔ دور افق پہ چاند دونوں کی پلاننگ پر خوشی سے آسمان کی وسعتوں سے جھانک رہا تھا۔