بہار اسمبلی چناؤ:اُردو آبادی نتیش کمار سے ناراض

   

پٹنہ : بہار کی اُردو آبادی حکومت سے ناراض ہوگئی ہے۔ بھلے ہی جے ڈی یو کے مسلم قائدین مسلم ووٹوں کو اپنی جھولی میںلانے کے جتن کررہے ہیں اور نتیش کمار کی کارکردگی کو ورچوئل کانفرنس کے ذریعہ مسلمانوں کو متاثر کرنے کی کوشش میں لگے ہیں ، لیکن ریاست کی اُردو آبادی کی ناراضگی نے حکومت کے سامنے بڑی مصیبت کھڑی کردی ہے۔ آل بہار اُردو ٹیچرس اسوسی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ اُردو کا مسئلہ جلد حل نہیں ہوا تو حکومت نتیجہ بھگتنے کیلئے تیار رہے۔ اسوسی ایشن نے ریاست گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسوسی ایشن کے مطابق ریاست کے مختلف ضلع ہیڈکواٹرس پر محبانِ اردو کا احتجاج جاری ہے۔ دستخطی مہم کے تحت بھی اردو کے مسئلہ پر حکومت سے اپیل کی جارہی ہے۔اردو کے معاملہ پر محبان اردو کیوں ناراض ہیں ، اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ دراصل محکمہ تعلیم نے اسکولوں کے نصاب سے اردو کی لازمیت ختم کردی ہے ۔ اب اردو اختیاری مضمون کا حصہ ہوگا۔ وہیں اردو ٹیچروں کی بحالی میں چالیس طلبہ کی قید لگائی گئی ہے یعنی جن اسکولوں میں چالیس طلبہ ہوں گے اردو کا ٹیچر اب اسی اسکول میں بحال ہوگا۔ اردو ٹیچرس اسوسی ایشن محکمہ تعلیم کے نوٹیفکیشن کو اردو کے ساتھ سازش بتاتی ہے۔ آل بہار اردو ٹیچرس اسوسی ایشن کے ریاستی صدر ڈاکٹر عقیل احمد کے مطابق حکومت کی دوہری پالیسی کے سبب اُردو کو جڑ سے مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ، جس کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائیگا۔ ادھر امارت شرعیہ بہار کے جنرل سکریٹری مولانا شبلی قاسمی نے کہا کہ اردو کے معاملہ پر حکومت کی خاموشی افسوسناک ہے۔ امارت کے مطابق اس معاملہ میں جلد ہی ایک وفد چیف منسٹرسے ملاقات کریگا۔ جمعیۃ علما بہار ،جمعیۃ اہل حدیث اور مجلس مشاورت کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ اسکولوں کے نصاب سے اردو کو لازمی مضمون کی حیثیت سے ہٹانا اردو کے ساتھ مذاق ہے۔ بزم صدف انٹرنیشنل کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری کے مطابق اسکولوں میں دوسرے مضامین کے ٹیچروں کی بحالی کیلئے طلبہ کی تعداد کی کوئی شرط نہیں ہے تو پھر اردو کے ٹیچر کی بحالی کیلئے حکومت نے چالیس طلبہ کی شرط کیوں لگائی ہے؟انھوں نے کہاکہ طلبہ کی تعداد کی شرط اردو کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اردو کے معاملہ میں محبان اردو کا احتجاج حکومت پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ ایک طرف جے ڈی یو کے لیڈر نتیش کمار کو اقلیتوں کا مسیحا بتا رہے ہیں تو وہیں دوسری طرف اردو کے مسئلہ پر صوبہ میں سخت احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت بروقت اس مسئلہ کو حل نہیں کرتی ہے ، تو مجوزہ اسمبلی انتخابات میں حکومت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔