حیدرآباد۔ اے ائی ایم ائی ایم کے صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی اسی سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے دوران بہار میں اپنے پیروں کو نشانات کو وسعت دینا چاہا رہے ہیں۔
بہار کے اسمبلی الیکشن میں اے ائی ایم ائی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مجوزہ اسمبلی الیکشن میں 32سیٹوں پر مقابلہ کرے گی۔
مذکورہ پارٹی نے ریاست کے 22اضلاعوں میں اپنے امیدوار کھڑا کئے ہیں اور اتنا ہی‘ مذکورہ پارٹی نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنی’ہم خیال پارٹیوں‘ کے ساتھ مفاہمت کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
اس مشق پر سرسری نظر سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ این ڈی اے کے ووٹ بینک کے بعد اے ائی ایم ائی ایم ہے اور اگر ہم آر جے ڈی اور کانگریس کی طرف توجہہ مبذول کریں تو یہ تازہ ڈیولپمنٹ پسینہ چھوڑنے والا ثابت ہوسکتا ہے۔
مذکورہ اے ائی ایم ائی ایم کو اس بات کی بھی امید ہے کہ ”ہم خیال پارٹیوں“ کے ساتھ اتحاد ہوگا تاکہ اسمبلی الیکشن میں برسراقتدار این ڈی اے پارٹی کے سامنے منھ توڑ چیالنج رکھا جاسکے۔
بہار اسمبلی کی میاد29نومبر کو ختم ہے۔ سال 2015میں اسمبلی الیکشن اکٹوبر‘ نومبر میں ہوئے تھے۔پچھلے سال کشن گنج کے اسمبلی ضمنی الیکشن میں کانگریس کواپنی ہی دوا کا ذائقہ ملا تھا۔
ایک اپوزیشن پارٹی بطور چیالنجر کانگریس کی طرح ہی گندی سیاست کھیلتی ہے‘ اس عظیم قدیم پارٹی کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ مذکورہ سیٹ جس کو کانگریس کا قلعہ مانا تھا مگر اے ائی ایم ائی ایم نے اس میں شاطرطریقے سے مداخلت کی ہے
۔سعیدہ بانو جس کو امیدوار بنایاگیاتھا وہ تیسرے مقام پر ائیں اور ضمانت بھی نہیں بچاسکیں۔
اس سیٹ سے قمر الحق کی کامیابی نے مسلم اکثریت والے علاقے کشن گنج کی سیاست کو ہی بدل کر رکھ دیاہے۔
بہار کی بڑی تصویر میں اویسی کی پارٹی اے ائی ایم ائی ایم کی آمد اور مقابلے کو سہ رخی بنانا‘ بی جے پی کے لئے بڑی حد تک کامیابی ہوگی۔
کئی سالوں سے مسلم آؤ بھگت کی سیاست اور ذات پات کا سیاسی کھیل کھیلنے والی آر جے ڈی اور کانگریس کی الکٹورل مساوات بدل جائے گی۔
دس سالو ں سے اے ائی ایم ائی ایم ریاست بہار میں قدم جمانے کی کوشش کررہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے کچھ راستہ ہموار کرلئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اے ائی ایم ائی ایم کی آمد لالو پرساد یادو کے جانشین تیجسوی یادو او رکانگریس دونوں کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔
جن اضلاعوں میں اے ائی ایم ائی ایم نے اپنے امیدوار کھڑا کئے تھے وہ مسلم اکثریت والے علاقے ہیں۔ کاتی ہار ضلع جس میں تین اسمبلی حلقہ بالرام پور‘ باری اور کڈوا مسلم اکثریت والے حلقہ ہیں۔
پورنیا میں دو مسلم اکثریت والی سیٹیں اموار اور بیاسی ہے‘ دربھنگا میں کوٹی اور دیگر دو سیٹیں ہیں۔
اویسی نے ٹھیک اسی طرح کا طریقہ کا 2014کے مہارشٹرا اسمبلی الیکشن میں استعمال کیاتھا جس میں انہوں نے 25سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کئے او رکانگریس کے ووٹ میں بڑی دراڑ پیدا کردی تھی۔
حالانکہ اے ائی ایم ائی ایم نے ریاست میں صرف دوسیٹوں پر ہی جیت حاصل کی تھی۔بہار کی سیاست میں ذات پات کا کھیل کافی اہم رول ادا کرتا ہے۔
کچھ ذات والوں کو چھوڑ کر ہندؤ این ڈی اے اور بالخصوص بی جے پی کی طرف بڑھے ہیں‘ مگر اویسی کی آمد نے کانگریس اور آر جے ڈی کے خیمہ میں دراڑ پیدا کرسکتا ہے‘ سیمانچل علاقے میں اس کے روایتی ووٹ بینک کے لئے یہ خطرہ بن سکتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگراس علاقے میں اے ائی ایم ائی ایم کسی طرح سے 3-4سیٹوں پر جیت حاصل کرتی ہے‘ تو یہ ریاست میں حکومت تشکیل کرنے والوں کے لئے پریشان کن ہوجائے جس سہ رخی مقابلے کی وجہہ بنا ہے۔
بہار کے انتخابی نتائج کے متعلق قیاس لگانااس وقت مشکل ہوسکتا ہے مگر ایک بات کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ بی جے پی نے ائی ایم ائی ایم کو میدان میں اترکر زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتی ہے۔
اسد الدین اویسی کی اے ائی ایم ائی ایم ہندوستان میں ایک واحد پارٹی ہے جو قومی سطح پر صرف مسلمانوں کے مسائل کی نمائندگی کرتی ہے۔
اس سے نتیش کمار کی جے ڈی(یو) سے مسلم ووٹ بینک کی منتقلی کا سبب بن سکتا ہے‘ جس سے صرف بی جے پی کو مدد ملے گی۔
بی جے پی اپنی تیز تیوار اور بے باکی سے تبصرہ کرنے والے کے طور پر جانے جاتے ہیں اس سے ریاست میں پولرائزیشن کی سیاست کو مزید تقویت ملے گی۔
حالانکہ اے ائی ایم ائی ایم 32سیٹوں پر مقابلہ کررہی ہے‘ مذکورہ پولرائزشن کا ماحول ریاست بھر سے ہندووٹوں کو بی جے پی کی طرف راغب کرنے میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
بہار میں آنے والے نومبر کے اندر مودی کے لئے پہلا امتحان دلچسپ موڑ لے گا‘ یہ وہ ریاست ہے جہا ں سے بڑے پیمانے پر مہاجرین مزدور ملک کے دیگر علاقوں میں جاکر کام کرتی ہیں اور یہاں پر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کی حکومت برسراقتدار ہے۔