بہار ‘2024 کیلئے بی جے پی کے منصوبے

   

وفا کے راستے پر چلنے والے سوچ لے اتنا
بہت ممکن ہے گردن تک تیری خود بڑھ کے دار آئے
جیسا کہ سمجھا جا رہا تھا کہ نتیش کمار بہار اسمبلی میں اپنی عددی طاقت ثابت کر دکھائیں گے انہوں نے ایسا کردکھا یا ۔ حالانکہ اس کیلئے ایک ماحول پیدا کیا گیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جتنی اکثریت نتیش کمار کو ملنے کی امید کی جا رہی تھی اتنی اکثریت انہیں نہیں مل پائی ہے اور کچھ ان کے حامی ارکان بھی ایوان اسمبلی میں غیر موجود رہے ۔ اس صورتحال کے باوجود حالانکہ نتیش کمار نے چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنا موقف مستحکم کرلیا ہے اور ایوان میں اکثریت ثابت کردی ہے تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے فائدے انہیںپارلیمانی انتخابات میںملنے والے نہیں ہیں۔ بی جے پی نے بہار میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے ہی نتیش کمار کو د وبارہ ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی کے تحت نتیش کماربھی دوبارہ بی جے پی اور نریندر مودی کے ساتھ ہوگئے ہیں لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں دونوں ہی جماعتوں کو اتنا فائدہ نہیںہوسکتا جتنا انہیںا مید رہی ہے ۔ ایوان اسمبلی کی صورتحال سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی اور نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹیڈ نے گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں ریاست میں تقریبا کلین سویپ کیا تھا اور بھاری تعداد میں نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ بی جے پی اور جے ڈی یو دونوں ہی کو اندیشے ہیں کہ اس بار ان نشستوں کی تعداد میں کمی آئے گی اور انہیںنقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ جنتادل یو کی صورتحال خاص طور پر کمزور ہے اور اگر اس کا منصوبہ ہے کہ بی جے پی کے ساتھ مل کر اس صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے ۔ اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو کی جو صورتحال ہوئی تھی وہ اس کیلئے تشویش کا باعث بننے کیلئے کافی ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ ریاست میںجو نقصان کے اندیشے ہیں انہیں کم سے کم کیا جاسکے ۔ یہاںبی جے پی اور جے ڈی یو کو فی کس 17 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور لوک جن شکتی پارٹی نے 6 نشستوں پر جیت درج کروائی تھی ۔ اس طرح کی صورتحال 2024 میں دوبارہ ابھرتی نظر نہیں آ رہی ہے اور دونوں جماعتوں کو نقصان کا اندیشہ ہے ۔ اسی اندیشے کے تحت دو بارہ دھوکہ کھانے کے باوجود بی جے پی نے تیسری بار بھی نتیش کمار کو ساتھ ملا لیا ہے ۔
بی جے پی بھلے ہی آئندہ لوک سبھا انتخابات میں 370 نشستوں پر کامیابی کا دعوی کر رہی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اہم ریاستوں میں اسے نقصان ہوسکتا ہے جن میں اترپردیش اور بہار بھی شامل ہیں۔ اترپردیش میں بی جے پی کے 72 ارکان پارلیمنٹ تھے ۔ بی جے پی اس بار اس تعداد میںمزید اضافہ کا دعوی کر رہی ہے لیکن یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیںکہ بی جے پی کو ریاست میں تقریبا 30 تا 35 نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح بہار میں جے ڈی یو اور بی جے پی کو مشترکہ طور پر 15 تا 20 نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ مہاراشٹرا میں بھی بی جے پی نے اپنا کھیل شروع کردیا ہے اور وہاں کانگریس اور این سی پی قائدین کے علاوہ شیوسینا ادھو ٹھاکرے گروپ کے قائدین کو توڑا جا رہا ہے ۔ اس طرح مہاراشٹرا میں بھی امکانی نقصان کو ٹالنے کے منصوبوں پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ بہار میں چراغ پاسوان کیلئے صورتحال نہ اگلتے ہی بنے اور نہ نگلتے ہی بنے والی ہوگئی ہے ۔ چراغ پاسوان کے چچا پشوپتی ناتھ پارس نے پارٹی توڑی اور بی جے پی نے ان کو مرکزی وزیر بنادیا تھا ۔ اب دوبارہ چراغ پاسوان بی جے پی کے ساتھ جانے والے ہیں۔ ایسے میں ان کیلئے چچا سے تعلقات کو استوار کرنا آسان نہیں رہے گا ۔ جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام مورچہ ( ہم ) کو بھی ساتھ ملایا جا رہا ہے اور ساری کوشش یہی ہے کہ بہار میں آر جے ڈی اور کانگریس کے علاوہ کمیونسٹ جماعتوں کو پارلیمانی انتخابات میں نشستوں پر کامیابی سے روکا جائے ۔
بھلے ہی بی جے پی نے کئی منصوبے بنائے ہیں اور ان پر عمل کیا جا رہا ہے لیکن آج جس طرح سے اسمبلی کے ایوان میںصورتحال دیکھی گئی ہے اس سے واضح ہو رہا ہے کہ بی جے پی اور جے ڈی یو کیلئے اشارے اچھے نہیںہیں۔ ان کیلئے مشکل صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اور گذشتہ پارلیمانی انتخابات میںانہیںجتنی نشستیں حاصل ہوئی تھیں وہ تعداد برقرار رکھنا مشکل ہوگا ۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کو جتنی نشستوں کا نقصان ہوگا اتنی ہی فائدہ آر جے ڈی اور کانگریس کا ہوگا اور یہی وہ فائدہ ہوگا جو بی جے پی نہیںچاہتی ۔ بی جے پی سارے کھیل کر رہی ہے لیکن ان کا قطعی نتیجہ کیا ہوسکتا ہے وہ صرف انتخابی نتائج سے پتہ چل سکتا ہے ۔