بی آر ایس کے عوامی سفر کا آغاز

   

تلنگانہ میں برسر اقتدار بھارت راشٹرا سمیتی کا آج کھمم میں پہلا جلسہ عام منعقد ہونے والا ہے ۔ اس جلسہ کی کئی دنوں سے بڑے پیمانے پر تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اس جلسہ سے خصوصی خطاب کریں گے ۔ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال ‘ چیف منسٹر پنجاب بھگونت مان ‘ چیف منسٹر کیرالا پی وجئین کے علاوہ سابق چیف منسٹر اترپردیش اکھیلیش یادو شرکت کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور ریاستوں کے قائدین کی شرکت کا بھی امکان ہے ۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو بھارت راشٹرا سمیتی میں تبدیل کرنے کے بعد یہ پہلا جلسہ ہوگا ۔ اس طرح بی آر ایس عوام سے رجوع ہونے کا آغاز کر رہی ہے ۔ یہ عوامی سفر کی شروعات بھی کہی جاسکتی ہے ۔ اس جلسہ کے تعلق سے سیاسی حلقوں میں بھی کافی تجسس پایا جا رہا ہے ۔ مختلف گوشوں کی جانب سے مختلف طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جہاں تک بی آر ایس کا سوال ہے تو وہ سیاسی حلقوں میں جاری تبصروں سے قطع نظر جلسہ کوکامیاب بنانے اور لاکھوں کی تعداد میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانے پر ساری توجہ مرکوز کرچکی ہے ۔ بی آر ایس کے آزمودہ لیڈر و ریاستی وزیر ہریش راؤ کو جلسہ عام کے انتظامات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس جلسہ کے ذریعہ چندر شیکھر راؤ قومی سطح پر اپنے عزائم کا اظہار کریں گے ۔ یہ توقع بھی ہے کہ وہ بی جے پی کے خلاف سخت تبصرے بھی کرسکتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں جب سے بی جے پی نے تلنگانہ میں اپنے قدم جمانے کی کوششیں شروع کی ہیں اور سرگرم ہوگئی ہے چندر شیکھر راؤ بی جے پی کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے میں مصروف ہوگئے ہیں اور سخت ریمارکس اور تبصرے کر رہے ہیں۔ چندر شیکھر راؤ کے ان تبصروں اور ریمارکس کا بی جے پی کی جانب سے جواب بھی دیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے بھی بی آر ایس اور ریاستی حکومت کے خلاف مہم تیز کردی گئی ہے ۔ غرض یہ کہ دونوں ہی جماعتیں ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیںچاہتیں۔ کچھ گوشے اسے انتخابی حکمت عملی سے بھی تعبیر کر رہے ہیں تاکہ عوام میں یہ تاثر عام کیا جائے کہ تلنگانہ میں اصل مقابلہ بی آر ایس اور بی جے پی میں ہی ہے ۔
دونوں ہی جماعتوں کے عزائم اور منصوبے چاہے جو کچھ بھی ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام ساری صورتحال پر خاص نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ریاست میں جاریہ سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں بی آر ایس کی ساری توجہ ریاست میں اپنے اقتدار کو بچانے پر مرکوز ہوسکتی ہے ۔حالانکہ بی آر ایس نے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بھی مقابلہ کا اعلان کیا ہے اور جنتادل ایس کے ساتھ اتحاد بھی ہونے والا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے سب سے پہلے تلنگانہ میں اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تلنگانہ کے انتخابات کے بعد ہی بی آر ایس اپنے آئندہ کے عزائم پر کام کرسکتی ہے ۔ اگر تلنگانہ میں بی آر ایس کو تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو یہ واضح ہوجائیگا کہ چندر شیکھر راؤ ریاست کی ذمہ داری اپنے فرزند کے ٹی راما راو کے سپرد کرتے ہوئے خود قومی سطح پر سرگرم ہوجائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی آر ایس کی قومی سطح سے متعلق سرگرمیوں سے کے ٹی راما راؤ عملا دور ہیں۔ وہ ریاستی امور پر ہی توجہ دیتے ہوئے مصروف کار ہیں۔ ٹی آر ایس کو بی آر ایس میں تبدیل کرتے ہوئے چندر شیکھر راؤ دو کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک تو وہ کے ٹی آر کیلئے ریاست میں ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسرے کانگریس کو ریاست کی سیاست میں بے اثر ثابت کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ یہ ان کی حکمت عملی ہے ۔
تاہم جہاں تک ریاست کے عوام کا سوال ہے تو انتخابات سے قبل عوامی مقبولیت کے اعلانات اور بجٹ میں اسکیمات شروع کرتے ہوئے یا بجٹ فراہم کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی ۔ ریاست کی اسکیمات کو جس طرح سے تشہیر دیتے ہوئے دوسری ریاستوں سے تقابل کیا جا رہا ہے دیکھنا یہ ہے کہ دوسری ریاستوں میں بی آر ایس کس حد تک عوامی تائید حاصل کر پائے گی ۔ ابھی قومی سطح پر بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کا منظر بھی واضح نہیںہوا ہے کیونکہ چندر شیکھر راؤ بی جے پی کے ساتھ کانگریس سے بھی دوری رکھنا چاہتے ہیں جس پر کئی جماعتیں تحفظات رکھتی ہیں۔