بی ایس پی ‘ 2024 کے امکانات

   

اسی کو منزلِ مقصود بڑھ کے چومے گی
قدم جو پایۂ عزم و ثبات ہے ساقی
ملک کی سیاست میںا ترپردیش ریاست کی سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اترپردیش میں جس جماعت کا سکہ چلتا ہے اسی جماعت کو مرکز میں اقتدار تک پہونچنے میں مدد ملتی ہے ۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ اس ریاست میں جس جماعت نے عوام کے ووٹ حاصل کئے اسی جماعت کو دہلی میںاقتدار حاصل ہوا ہے ۔ جہاں اترپردیش سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے وہیں ریاست کی سیاسی صورتحال انتہائی گنجلک ہوتی ہے ۔ یہاں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کی روایت بہت زیادہ مستحکم ہے ۔ ہر جماعت کی جانب سے اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ سماج میں اثر رکھنے والے طبقات اور ذاتوں کے امیدواروں کو میدان میں اتارا جائے ۔ اسی کی بنیاد پر انہیںکامیابی بھی حاصل ہوتی ہے ۔ ریاست کی سیاست میں دو علاقائی جماعتوں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے بہت عرصہ تک اپنی اجارہ داری برقرار رکھی ۔ کانگریس کی سیاسی اہمیت ریاست میں گھٹ کر رہ گئی تھی جبکہ بی جے پی نے بھی کچھ وقت کی جدوجہد کے بعد اپنی فرقہ وارانہ سیاست کی مدد سے اور مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ریاست میں اپنا اثر و رسوخ بنالیا ہے ۔ بی جے پی ریاست میں دوسری معیاد کیلئے اقتدار پر ہے اور لوک سبھا کے بھی بی جے پی کے سب سے زیادہ ارکان اسی ریاست سے منتخب ہوئے ہیں۔ ریاست کی سیاست میں کسی وقت انتہائی اہمیت کی حامل رہنے والی بہوجن سماج پارٹی تاہم ایسا لگتا ہے کہ اب اپنا اثر کھوتی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو توقعات سے بہت کم ووٹ حاصل ہوئے تھے اور اس کی نشستوں کی تعداد بھی بہت کم رہی تھی ۔ ایک گوشے کا تاثر ہے کہ بی ایس پی نے انتخابی سیاست میںا پنے آپ کو محدود کرتے ہوئے بی جے پی کی مدد کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور کئی اہم مواقع پر بی ایس پی ورکرس نے اپنے ووٹ بی جے پی کو منتقل کروائے ہیں۔ یہ سب کچھ سماجوادی پارٹی اور کانگریس کو روکنے کی کوشش کے طور پر کیا گیا ہے ۔ بی ایس پی حالانکہ اس الزام کی تردید کرتی ہے ۔وہ اپنی الگ ہی منطق پیش کرتی ہے ۔
یہ بھی ایک حقیقت یہ کہ ریاست کی انتخابی سیاست میں اس کا انتہائی سرگرم رہنے والا رول اب بہت محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ خود پارٹی سے وابستہ قائدین ‘ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی بھی اب اپنے لئے الگ راہیں تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ گذشتہ مہینوں جب خود لوک سبھا میں بی ایس پی کے رکن دانش علی کے خلاف بی جے پی کے رکن رمیش بدھوڑی نے انتہائی نازیبا اور ناشائستہ زبان استعمال کی تھی اس وقت بی ایس پی نے اپنے رکن پارلیمنٹ کی حمایت کرنے کی بجائے ان کی سرزنش کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر بی جے پی کی حمایت کی تھی ۔ اسی طرح کل بھی بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ رتیش پانڈے نے بھی پارٹی سے استعفی دیدیا ہے اور وہ بی جے پی میںشامل ہوگئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ دانش علی بھی اب بی ایس پی کو چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ دانش علی امروہہ کے رکن ہیں اور جس وقت انہیں پارلیمنٹ میں نشانہ بنایا گیا تھا اس وقت کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے ان کی قیامگاہ پہونچ کر ان سے اظہار یگانگت کیا تھا ۔ اس کے علاوہ یو پی میں جب راہول گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا گذر رہی تھی وہ سنبھل جانے والے تھی تاہم دانش علی کی درخواست پر اس یاترا کو امروہہ سے گذارا گیا ۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ دانش علی بھی اب کانگریس سے کسی بھی وقت وابستہ ہوسکتے ہیں۔ کئی دوسرے قائدین ایسے ہیںجنہیں پارٹی قیادت سے بے شمار شکایات ہیں لیکن ان کی کوئی سنوائی یا سماعت کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ہے ۔
خود پارٹی قائدین میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ پارٹی سربراہ مایاوتی اب عوام میںزیادہ مقبول نہیںرہ گئی ہیں اور وہ پارٹی امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی اہلیت کھوتی جا رہی ہیں۔ گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں 10 نشستیں جیتنے والی بی ایس پی کیلئے اس بار اپنی نصف تعداد کو بھی برقرار رکھنا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ کئی قائدین اب پارٹی تبدیل کرنے کے تعلق سے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں اور اس بات کے واضح اشارے دے رہے ہیںکہ وہ کسی بھی وقت اپنے سیاسی مستقبل کیلئے فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ان حالات میںبی ایس پی اور مایاوتی کیلئے 2024 کے پارلیمانی انتخابات ایک چیلنج سے کم نہیں ہونگے ۔