بی جے پی ’’ انڈیا ‘‘ کی مخالف کیوں ؟

   

روش کمار
ایک ملک ایک مباحثہ بھارت میں یہ 2014 سے ہی لاگو ہے ایک کے بعد ایک تنازعہ منظر عام پر آتا ہے ۔ اس کو لیکر گودی میڈیا کے ٹی وی چیانلوں پر مباحث شروع ہوجاتے ہیں ۔ کیا آپ نے سوچا ہیکہ بھارت بہ نام انڈیا کی یہ بحث کیوں چلائی گئی ہے ؟ کیا آپ کو پتہ بھی ہیکہ نومبر 2015 میں اس سوال پر مودی حکومت میں ہی وزارت داخلہ نے کیا کہا تھا یہ خبر 16 نومبر 2015 کو دی انڈین ایکسپریس کی اشاعت میں شائع ہوئی ہے جس میں صحافی اتکرش آنند نے لکھا ہیکہ مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ انڈیا کی جگہ بھارت کہنے کی ضرورت نہیں ہے اب بھی ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہیکہ دستور کی دفعہ 1 کو بدلا جائے جو کہنا ہے کہ ” India that is Bharat Shall be union of States “? ( بھارت مطلب انڈیا ریاستوں کا اتحاد ہوگا ) ۔
بتایئے کہ وزارت داخلہ اس تجویز کو ٹھکرا چکا ہے وہ بھی مودی حکومت کے دور میں ۔ سوچ و فکر کے بعد وزارت داخلہ عدالت عظمی میں حلف نامہ داخل کیا ۔ تحریری شکل میں کہا کہ انڈیا کو بھارت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اب اچانک سے سارے کے سارے غلامی کے خلاف لڑنے والے آزادی کے نئے سپاہی بن گئے ہیں ۔ آزاد بھارت میں غلامی کے خلاف یہ نئی تحریک آزادی چل رہی ہے ایسی نوٹنکی یا ڈرامہ آزاد بھارت میں نہیں ہوگا تو پتہ کیسے چلے گا کہ بھارت اب بھی آزاد ہے ۔ اب آگے چلتے ہیں کہ کیسے بی جے پی نے بھارت نام کی مخالفت کی تھی ۔ 2004 میں یو پی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی کہ دستور میں تبدیلی ہو اور انڈیا جو کہ بھارت کی جگہ ہے بھارت جو انڈیا ہے لکھا جائے تب چیف منسٹر ملائم سنگھ یادو نے ایسا کیا ۔ ایکسپریس کے اپروا وشواناتھ نے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ اس وقت بی جے پی نے اس قرارداد کی مخالفت کی کیوں ؟ بی جے پی نے ایوان سے واک آؤٹ کیا تھا ۔ بغیر بی جے پی کے ملائم سنگھ یادو نے یہ قرارداد منظور کروایا تھی قاعدہ سے بی جے پی کی مخالفت اس وقت درست تھی کیونکہ جب دونوں نام ہیں تو پھر ملک کو ان سب میں الجھانا کیوں لیکن اب وہی بی جے پی بھارت نام کی چمپین بن گئی ہے خود اس قرارداد کی مخالفت کرچکی ہے خود مودی حکومت نے عدالت میں حلف نامہ داخل کیا ہے کہ بھارت نام کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے آپ کو یعنی عوام کو سوچنا ہے کہ اب ایسا کیا ہوگیا کہ یہ بحث چلائی جارہی ہے ۔ G-20 کے ڈنر کارڈ یا دعوت نامہ پر پریسیڈنٹ آف بھارت لکھ کر پیچھے کے دروازے سے یہ بحث کیوں شروع کی گئی اور دونوں نام ہونے سے آپ کا کیا نقصان ہورہا تھا ۔ خود مودی عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کے بعد اسکیل انڈیا ، میک ان انڈیا ، ڈیجیٹل انڈیا کرتے ہیں تب کیا انہیں غلامی نظر نہیں آئی ، ریزرو بینک آف انڈیا کو کیا انگریزی میں آپ ریزرو بینک آف بھارت لکھیں گے اور اس کیلئے کیا نئے نوٹ پرنٹ کروائیں گے ؟ پھر سے نوٹ بندی ہوگی ، پورے ملک کے باشندوں کے پاسپورٹس کیا تبدیل کئے جائیں گے کیا ، کیا کریں گے آپ تاکہ عوام کے مسائل گودی میڈیا کے اسٹوڈیو میں نہ پہنچے اور گودی میڈیا کے اسٹوڈیوز سے مودی کی سیاست کا موضوع عوام کے درمیان گھومتا رہے اس لئے آپ کو سوچنا ہے کہ وہ کونسے مسائل ہیں جن پر پردہ ڈالنے کیلئے طرح طرح کے مسائل اُٹھائے جارہے ہیں کوئی مسئلہ ابھی ٹھیک سے عوام کے درمیان ابھی پہنچتا بھی نہیں ہے کہ دوسرا پیش کردیا جاتا ہے یہ مسئلہ عوام کی طرف سے نہیں آیا بلکہ اوپر سے آیا ہے ، وزیراعظم نریندر مودی کی سیاست کا یہ فارمولہ اب پرانا ہوچکا ہے تب تو صاف سمجھ میں آجاتا ہے آپ مانے یا نہ مانے ملک کو اس طرح کی مسئلہ بازی سے بہت نقصان ہورہا ہے آپ دیکھیں گے ہر وقت ایک نیا مسئلہ چھیڑا جاتا ہے اور بحث چلائی جاتی ہے اس کا نام ہم نے بحث کلچر رکھا ہے اس میں ایسا کچھ نہیں جسے سمجھنے کیلئے آپ کو فزکس ( طبعیات ) میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کرنی پڑی ، اس بحث کلچر کیلئے قومی نصاب پہلے ہی سے تیار ہے کئی بار اسی نصاب میں سے پرانے مسائل بار بار اُٹھائے جاتے ہیں اکثر باسی مسائل ہوتے ہیں کئی بار مسائل غائب ہوتے ہیں کئی بار کچھ نئے مسائل جوڑ دیئے جاتے ہیں پر کیا یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ کسی مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے ۔ ہمارے پاس ٹھوس وجوہات تو نہیں ہیں مگر کیا یہ خبر وجہ ہوسکتی ہے کہ G-20 سے پہلے دنیا کے بڑے اخبارات میں اڈانی کی خبر شائع ہوئی تھی اور آج بھی لائیو منٹ میں ایک خبر شائع ہوئی ہے تو کیسے اس خبر کو بحث کی آندھی سے اُڑا دیا جائے ؟ وردن سود اور پون بورگلا کی یہ رپورٹ ہندی کے اخبار سات جنم میں نہیں شائع کر پائیں گے ۔ ان دونوں صحافیوں نے دکھایا ہے کہ برمودا اور ماریشس سے چلائے جانے و الے جن پبلک مارکٹ فنڈس کا تعلق ان لوگوں سے رہا ہے جو اڈانی گروپ کے شیئرس خریدتے تھے وہ بند ہوچکے ہیں اس طرح کے 8 میں سے 6 فنڈس بند ہوچکے ہیں منٹ اخبار نے دو ریگولیٹری ماہرین سے بات کی ہے جنہیں کا ریگولیٹری دنیا کا وسیع تجربہ ہے ان کا کہنا ہے کہ عام طریقہ سے چلائے جارہے فنڈس کا اتنی جلدی بند ہوجانا حیرانی کی بات ہے ۔ کیا اس سے کسی کو اس کا خدشہ نہیں ہوگا کہ جو فنڈ اڈانی گروپ میں شیئر خرید رہا ہے سرمایہ مشغول کررہا ہے وہ بند بھی ہوجارہا ہے ۔ کیا کوئی ایسا ہوگا جو ثبوتوں کو مٹا رہا ہے ۔ ماریشس اور برمودا میں بھی SEBI کی طرح ہی مارکٹ کو ریگولیٹ کرنے والا کوئی ادارہ ہوتا ہے اس ادارہ کو رپورٹ کیا گیا ہیکہ یہ 6 فنڈس بند کئے جارہے ہیں ان میں سے دو گزشتہ سال ہی بند ہوئے ہیں ان سب دستاویزات کی مدد سے یہ رپورٹ لکھی گئی ہے اس رپورٹ کا لب لباب یہ ہیکہ SEBI اب کیسے جانچ کر پائے گی اور اگر کرے گی بھی تو اس کیلئے بہت مشکل ہوگا اگر SEBI نے پہلے ہی بند ہوئی ان اکائیوں کی جانچ شروع کردی ہوتی تو یہ پتہ لگایا جاسکتا تھا کہ کیا ان کا اڈانی گروپ اسٹاک کے استحصال میں ہاتھ تھا یا نہیں ؟ ان فنڈس کے بند ہوجانے سے اب SEBI کیلئے ان کے استفادہ کنندہ تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا ۔ تو اب پتہ ہی نہیں چلے گا کہ جو فنڈس اڈانی گروپ میں شیئر خرید کر پیسہ بنارہے تھے وہ پیسہ کس کے ہاتھ میں گیا ؟ کس کا تھا ؟ کیا ہم کبھی جان پائیں گے کہ یہ کس کا پیسہ تھا ؟ اس طرح سے 8 ماہ سے اڈانی گروپ کو لیکر مسلسل سوالات اُٹھ رہے ہیں مگر کسی کو فرق نہیں پڑرہا ہے ۔کیا یہ بھروسہ اس لئے بن گیا ہے کہ عوام کا کیا ہے اسے خبر چاہئے مباحث چاہئے تو ہم اپنی طرف سے خبر اور مباحث کی سپلائی کردیتے ہیں بحث کلچر شروع کردیئے ہیں ۔ آپ کو ایسا محسوس ہو کہ یہ لوگ ملک کا بھلا کررہے ہیں اور صحافت کررہے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ بھارت کے عام ناظرین یا قاری دس سال سے یہ روزروز کی تذلیل کیسے برداشت کرر ہے ہیں ؟ کس طرح سے سرخیوں کا نظم ہورہا ہے آج کے اخبارات کو آپ دیکھ لیجئے گودی میڈیا کے مباحث کو دیکھئے اسے کس سنجیدگی سے جاری کیا جارہا ہے یہ بھی دیکھئے کہ عوام کا تو یہ کہنا ہیکہ مودی حکومت کو ہندوستان ، بھارت ، انڈیا کے نام کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ بھارت ہو یا انڈیا یا پھر ہندوستان ایک ہی بات ہے ۔ عوام کا یہ بھی کہنا ہیکہ آج مودی حکومت جس طرح انڈیا کو ہٹانا چاہتی ہے اس سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات آرہی ہے کہ یہ ایک سیاسی کھیل ہے اور مودی حکومت اپوزیشن اتحاد INDIA سے خائف ہے ۔ حیرت اس بات کی ہیکہ ہندی کے اخبار ’’بھارت نہیں انڈیا‘‘ کی سرخیوں سے بھرے پڑے ہیں جبکہ ملک میں G-20 کی تیاریاں زوروں پر ہے ۔یہ سطور پڑھنے تک G-20 سربراہ اجلاس ختم ہوچکا ہوگا ۔