بی جے پی بمقابلہ ممتا۔ لوک سبھا الیکشن میں مغربی بنگال کیوں اہمیت کا حامل ہے۔

,

   

بی جے پی ممتا بنرجی کی گھریلو زمین پر اس کو چیالنج دے رہی ہے ‘ ترنمول کانگریس کی منشاء مرکز میں بڑا رول ادا کرنے کی ہے۔
پچھلے مہینے مغربی بنگال میں ایک بڑی ریالی دیکھنے کو ملی۔

کلکتہ کے بریگیڈ پریڈ گروانڈ پر منعقد جلسہ عام میں 23مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نظر ائے‘ اور اس جلسے کی قیادت ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی نے کی ۔

بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے خلاف یہ ایک طاقت کا مظاہرہ تھا۔ہفتہ کے روز وزیر اعظم نریندر مودی نے مغربی بنگال میں بی جے پی کے لوک سبھا الیکشن کا آغاز ایک جلسہ عام سے کیا۔

انہو ں نے بنگلہ دیش کی سرحد سے لگے ٹھاکر نگر سے اس کی شروعات کی اور ترنمول کانگریس سے کہاکہ وہ شہریت(ترمیم)بل کی حمایت کریں ‘ مذکورہ بل بنگلہ دیش سے ہندوستان میں آکر رہنے والے ایک مخصوص طبقے جس میں ہندو بھی شامل ہیں کو ملک کی شہریت فراہم کی جائے گی۔

لوک سبھا الیکشن میں مغربی بنگال کی اہمیت کیا اس کا اگر سرسری جائزہ لیاجائے تو یہ بات سامنے ئے گی کہ کیو ں بی جے پی مغربی بنگال کی طرف اپنی توجہہ مرکوز کئے ہوئے ہے؟۔روایتی طور پر مغربی بنگال بائیں بازو نظریات کی حامل ریاست مانی جاتی ہے۔

جب بی جے پی صدر امیت شاہ نے اپریل2017میں اپنے قومی دورے کا آغاز کیاتو انہوں نے نکسلباری کا انتخاب کیاجو ماؤسٹ تحریک کا مرکز مانا جاتا ہے۔ بائیں بازو لیڈروں نے اس کو بی جے پی او رآر ایس ایس کی بائیں بازواور نظریات کے خلاف ایک مہم کی شروعات کے طور پر مانا ۔

اس کا نتیجے ترپیورہ میں بھی دیکھائی دئے جہاں پر بی جے پی نے 25سال پرانے بائیں بازو حکومت کو پچھلے سال شکست دی۔

او ربنگال میں بائیں بازو کے اقتدار سے دور ہونے کے بعد یہ ممتا تھی ترنمول کانگریس تھی جو اقتدار پر فائز ہوئی جس کو ’’ نئی لفٹ‘‘ کہاجاتا ہے ۔

اس کے سنگور اور نندگرام میں بائیں بازو کے انداز میں چلائی جانے والی تحریک نے 2011میں ممتا کو اقتدار پر فائز کیا۔دائیں بازو بمقابلہ بائیں بازو کو چھوڑدیں تو ترنمول کانگریس کی مغربی بنگال میں طاقت بھی کافی اہمیت کی حامل مانی جاتی ہے۔

پارٹی اب بھی خود کو لوک سبھا الیکشن میں بادشاہ گر موقف کے طور پر پیش کررہی ہے۔ مغربی بنگال اترپردیش (80)مہارشٹرا(48)کے بعد مغربی بنگال42لوک سبھا سیٹوں کے ساتھ کافی اہمیت کی حامل ریاست ہے‘ جو الیکشن کے بعد حکومت کی تشکیل میں کافی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔

سال2014کے الیکشن میں بھی نریندر مودی کے لئے بڑی عوامی حمایت ملنے کے باوجود‘ ترنمول کانگریس نے 42میں سے 34پر جیت حاصل کی تھی بی جے پی دارجلنگ اور اسنسول دوسیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی۔

اس جیت نے لوک سبھا الیکشن میں ترنمول کانگریس کو ملک کی تیسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھارہ۔ اگر مجوزہ لوک سبھا الیکشن میں بھی ٹی ایم سی کا مظاہرہ ٹھیک اسی طرح کا رہا تو ممتا بنرجی متوقع صدراتی امیدوار کی دوڑ میں سب سے آگے رہیں گی۔بڑا سوا ل یہ کیا تو کیا بی جے پی مغربی بنگال میں اپنے طاقت بڑھانے میں کامیاب ہوگی؟

۔سال2014کے عام انتخابات میں قومی سطح کی مہم کے دوران بی جے پی نے17فیصد ووٹ مغربی بنگال سے حاصل کئے تھے ‘ ریاست میں بی جے پی کا سب سے شاندار مظاہرہ تھا۔ اس کے بعد2016کے اسمبلی الیکشن میں اس کا ووٹ شیئر گھٹ کر دس فیصد ہوگیا’ مگر پارٹی نے دباؤ برقرار رکھا۔

لفٹ فرنٹ او رکانگریس کے درمیان میں نااتفاقیو ں میں اپوزیشن کا جو خلاء پیدا ہوا اس کو پرکرنے میں بی جے پی کارآمد ثابت ہوئی۔

سال2016کے بعد سے ہر الیکشن میں اصلی اپوزیشن کا دعوی پیش کرتے ہوئے بی جے پی کانگریس او رلفٹ سے آگے رہی ۔ اپوزیشن کے علاوہ ریاست میں پہلے سے سرگرم آر ایس ایس‘ وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی موجودگی نے پارٹی کو مزید استحکام بخشنے کاکام کیا ہے ۔

بی جے پی اور آر ایس ایس نے مشترکہ طور پر اپریل2017میں ریاست کے تمام اضلاع میں175رام نومی جشن منانے کا اعلان کیاتھا۔ اگلے دوسالو ں میں ریاست میں رام نومی کے لئے’’ مصلح جلوس‘‘ دیکھے گئے۔ اس کے نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ترنمول کانگریس نے اپنے رام نومی جلوس نکالنے کا اعلا کیا۔

بعد ازاں دونوں پارٹیو ں ہنومان جینتی تقاریب منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا جو بنگال میں ایک مثال بن گیا۔رام نومی کے کچھ جلوس فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بنے سال2017میں ہوگلی‘سال 2018میں رانی گنج ‘ اسنسول اور پورولیا ۔

اس کے علاوہ ڈسمبر جنوری 2016-17کے دوران دھولہ گڑھ اور اولوبیاریہ ( ہواڑہ) میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات بھی رونما ہوئے ‘ اتفاق سے اولوبیریہ انتخاب میں پچھلے سال بی جے پی نے مرکزی اپوزیشن کی سی پی ائی کی جگہ چھین لی ۔

اگر سوال کیاجائے کہ کیا یہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے دوران ہی حقیقی جنگ ہے ؟۔ ایسا اس لئے جارہا ہے کیونکہ سی پی ائی ایم اور کانگریس دونوں کھیل میں موجود ہیں۔

ترنمول کانگریس پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے خلاف نفرت مئی2018میں ہوئی پرتشدد پنچایت الیکشن کے بعد پھیلانا شروع ہوئی جس میں پارٹی نے 34فیصد سیٹوں پر بلامقابلہ جیت حاصل کرلی۔

جس کی وجہہ سے یہ الزام بھی لگایا کہ اپوزیشن پارٹی کو الیکشن میں کھڑے رہنے اور ووٹرس تک رسائی کرنے کا موقع نہیں دیاگیا۔ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ہی ترنمول کے ووٹرس بی جے پی کی طرف پلٹنے لگے‘ فاشزم نے برسراقتدار پارٹی کی مقبولیت میں کمی لانے کاکام کیاہے۔

تاہم دیگر مبصرین کا ماننا ہے کہ کیا یہ تبدیلی بی جے پی کو زیادہ سیٹیں جیتنے میں مددکرے گی جو اپوزیشن لفٹ پارٹی اور کانگریس کی اثر والی ہیں۔

درحقیقت بی جے پی کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا ہے

۔حالانکہ کے دارجلنگ میں گورکھا لینڈ ایجی ٹیشن کو ختم کردیا اور گورکھا مکتی مورچہ اور بیمال گورانگ‘ بینوائی تامنگ کے درمیان تقسیم پیدا کردی ‘ جو ترنمول کانگریس کے قریبی مانے جاتے تھے۔سٹیزن(ترمیم)بل سے پیدا ہونے والی کشیدگی کا بھی بی جے پی کو سامنا کرنا ہے۔

سال2014کے الیکشن میں کانگریس اور سی پی ایم نے چھ سیٹوں پر جیتت حاصل کی تھی۔ اگر دوبارہ کانگریس او رسی پی ائی ان سیٹوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے اور ماباقی سیٹوں پر ترنمول کی مدد کریں گے تو مغربی بنگال میں بی جے پی کے مشکلات کھڑی ہوجائیں گی