بی جے پی نئے ہندوستان کی گراموفون کمپنی

   

پی چدمبرم
سابق وزیر داخلہ و فینانس
فرانسیس براڈ لیور پل کا رہنے والا ایک مصور تھا،اس کا ایک بھائی بھی تھا جس کا نام مارک تھا۔ مارک کی موت ہوگئی اور مارک کے اثاثوں میں ایک سلینڈر فونوگراف فرانسس کے حصہ میں آیا جس میں مارک کی آواز کی ریکارڈنگ موجود تھی۔ ساتھ ہی مارک نے اپنے بھائی کیلئے ایک پالتو کتا جس کا نام نیپر تھا، چھوڑا۔ جب کبھی فرانسس ریکارڈس بجاتا وہ کتا فونوگرام کے اطراف دوڑنے لگتا ، کبھی کبھی اس کے اوپر چڑھ کر بڑے غور سے آواز سننے لگتا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ وہ کسی الجھن کا شکار ہے اور بڑی بے چینی کے ساتھ یہ جاننا چاہتا ہے کہ آخر آواز آرہی ہے تو کہاں سے آرہی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ وہ گراموفون میں ریکارڈس بجانے کے دوران کتے کا بے چینی سے اور تجسس آمیز انداز میں ادھر ادھر بھاگنا اور گراموفون پر چڑھ کر بڑے غور سے آواز کی سماعت کرنا ایک خوبصورت منظر بن گیا تھا ۔ ایسے میں فرانسس جو کہ ایک مصور تھا ، اس نے اس منظر کو اپنے برش کے ذریعہ ایک تصویر میں ڈھال دیا اور اس تصویر کا نام ’’ہز ماسٹرس وائیس‘‘ رکھا۔ بہرحال گراموفون کمپنی نے 1899 ء میں وہ پینٹنگ صرف 100 اسٹرلنگ پاؤنڈ میں خریدی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تصویر گراموفون کا لوگو بن گئی اور لوگو نے بہت مقبولیت حاصل کی ۔ 8 سال بعد کپنی نے اس کا نام HMV رکھا اور پھر مارک کا کتا ہمیشہ کیلئے یادگار بن گیا۔ لندن میں 2014 ء کے دوران اس کی یاد میں ایک آسمانی لوح نصب کی گئی۔
گزشتہ ہفتہ جب میں نے اخبارات میں یہ پڑھا کہ بی جے پی کے دو ترجمانوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی (نپور شرما کو پارٹی سے معطل کیا گیا جبکہ نوین کمار جندال کو پارٹی سے برطرف کردیا گیا) مجھے اس وقت نپر کی کہانی یاد آئی۔ بنا کسی تحقیر و تذلیل کے مجھے نپور اور نوین دونوں کا حوالہ دینے دیجئے۔ 5 جون کو نپور شرما کو ایک مکتوب موصول ہوا جو پارٹی نے انہیں روانہ کیا تھا۔ اس مکتوب میں کچھ یوں لکھا تھا ’’آپ نے مختلف امور پر پارٹی کے موقف کے متضاد خیالات کا اظہار کیا ہے‘‘۔ ان الفاظ نے مجھے حیرت زدہ کردیا کہ آخر مسلمانوں اور عیسائیوں سے متعلق امور پر بی جے پی کا موقف کیا ہے۔ مسلمان اور عیسائی ہندوستان کے شہری ہیں۔ نپور اورنوین بی جے پی کے وفادار سپاہی ہیں اور وہ اپنے قائدین کو بڑے غور و فکر کے ساتھ سنتے ہیں ۔ آپ لوگوں کی طرح نپور اور نوین نے بھی بی جے پی قائدین کو پڑھا ، سنا اور ان کے خیالات و افعال کا مشاہدہ بھی کیا۔ مثال کے طور پر گجرات میں 2012 ء کی انتخابی مہم کے دوران نپور اور نوین نے مسٹر نریندر مودی کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’اگر ہم 50 ملین گجراتیوں کی عزت نفس اور حوصلوں کو بلند کرتے ہیں تب علیوں ، مالیوں اور جمالیوں کی جانب سے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ۔ یقیناً مودی کی تقریر سن کر وہ حیرت زندہ ہوئے ہوں گے کہ آخر علیز ، مالیز اور جمالیز کون ہیں اور ہم کون ہیں۔ اس کے علاوہ آخر علیوں ، مالیوں اورجمالیوں نے ہمیں نقصان پہنچانے کیلئے اسکیمات کیوں بنائیں۔
یادگار الفاظ
اترپردیش اسمبلی کے انتخابات 2017 ء کی انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے وزیراعظم نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیا۔ بی جے پی قائدین نے مودی کی تقریر کو یادگار تقریر قرار دیا لیکن اسی تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ کسی گاؤں میں قبرستان بناتے ہیں تو پھر شمشان بھی بنانا چاہئے ۔ کسی سے امتیاز نہیں برتا جانا چاہئے ۔ وزیراعظم کے وہ الفاظ یقیناً نپور اور نوین پر گہرے اثرات مرتب کئے ہوں گے۔ ان لوگوں نے 11 اپریل 2019 ء کو امیت شاہ کے وہ الفاظ بھی سنے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ ہم سارے ملک میں این آر سی پر عمل آوری کو یقینی بنائیں گے اور ہم ملک سے آخری در انداز کو بھی نکال پھینکیں گے ، سوائے بدھسٹوں ، ہندوؤں اور سکھوں کے … بی جے پی کا یہ عہد ہے کہ دراندازوں سے چھٹکارا پایا جائے … غیر قانونی مہاجرین دیمک کی طرح ہیں جو وہ اناج بھی ہضم کر جارہے ہیں جس کے مستحق غریب عوام ہیں۔ یہ لوگ ہماری ملازمتیں چھین رہے ہیں۔ امیت شاہ کے ان الفاظ سے یقیناً نپور اور نوین ضرور متاثر ہوئے ہوں گے اور یہ سمجھے ہوں گے کہ ایک صحیح مقام پر صحیح شخص نے صحیح الفاظ استعمال کئے۔ 15 ڈسمبر 2019 ء کو جھارکھنڈ میں منعقدہ ایک انتخابی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ امن و امان کو تباہ کرنے والے لوگوں کو ان کے لباس سے پہچانا جائے۔ نپور اور نوین نے بھی یقیناً اس تقریر کو سنا ہوگا اور پھر یہ عہد کیا ہوگا کہ وہ لوگوں کی ان کے لباس سے نشاندہی کریں گے ۔ اترپردیش اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران چیف منسٹر مسٹر ادتیہ ناتھ نے بار بار یہ کہا کہ مقابلہ بہت آگے بڑھ چکا ہے ، اب لڑائی 80 فیصد اور 20 فیصد کے درمیان ہے۔ نپور اور نوین نے یقیناً ادتیہ ناتھ کے یہ الفاظ سنے ہوں گے اور ان کے ذہنوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ گئی ہوگی کہ ’’20 فیصد‘‘ ملک کے دشمن ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کے بارے میں بی جے پی کا موقف ہے ، کوئی بھی اس تعلق سے شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں سے متعلق بی جے پی کا موقف جاننے کیلئے آپ تاریخ کا مطالعہ کرے تو پتہ چلتا ہے کہ ایم ایس گولوالکر (آر ایس ایس میں گرو جی) کے دور سے ہی یہ چلا آرہا ہے ۔ بی جے پی نہیں چاہتی کہ مسلمان ہندوستان یا ہندوستانی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں رہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں 375 بی جے پی ارکان ہیں ، ان میں جاریہ ماہ کے اواخر تک ایک بھی مسلمان رکن باقی نہیں رہے گا۔ حد تو یہ ہے کہ 403 رکنی یو پی اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا۔ اس کے علاوہ 182 رکنی گجرات اسمبلی میں بھی بی جے پی کا ایک بھی مسلم امیدوار نہیں تھا۔ 11 ریاستوں میں جہاں بی جے پی کے چیف منسٹرس ہیں ، صرف ایک مسلمان کو وزیر بنایا گیا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف انڈیا میں 2012 ء کے بعد کوئی بھی مسلم الیکشن کمشنر مقرر نہیں کیا گیا۔ مسٹر ایس وائی قریشی جون 2012 ء میں ریٹائرڈ ہوئے تھے ۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔ میرے خیال میں نپور شرما اور مسٹر نوین کمار جندال نے پورے جوش و خروش اور وفاداری کے ساتھ کئی امور پر بی جے پی کا موقف ظاہر کیا ۔ اپنے آقاؤں کی آواز سنی اور ان ہی کے انداز میں بات کی۔ بی جے پی دراصل جدید ہندوستان کی گرامو فون کمپنی ہے۔ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بے شمار کارروائیاں کی گئیں اور مختلف بہانوں سے انہیں ہراساں کیا گیا لیکن حکومت بہری ، گونگی بنی رہی تاہم پیغمبر اسلام کے خلاف نپور شرما اور جندال کی بکواس پر یو اے ای اور دیگر 15 ممالک نے مذمت کی تب حکومت مجبوراً دفاع پر اتر آئی۔ پھر وزارت خارجہ کے عہدیداروں اور معتمد خارجہ کو سامنے لایا گیا ۔ وزیراعظم نے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا، وہ سمجھتے ہیں کہ اس مرحلہ سے بھی بآسانی گزر جائیں گے اور زندگی چلتی رہے گی تاہم وزیراعظم کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہندوستان کے 202 ملین مسلمانوں کے بغیر سیاسی زندگی نہیں چلے گی۔ اس مرتبہ اپوزیشن نے نہیں بلکہ عالمی برادری نے مسٹر مودی کو خبردار کیا ہے۔