بی جے پی کا چھتیس گڑھ منشور

   

مشعلیں لے کر بغاوت کی اُٹھی ہے آندھی
آگ بڑھتی ہوئی سرکار تک آجائیگی
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے موسم میں عوام سے مفت سہولیات فراہم کرنے کے وعدوں اور انتخابات میں کامیابی کے بعد ان وعدوں پر عمل آوری کو مفت کی ریوڑی قرار دینے والی بی جے پی کو بھی شائد اب اندازہ ہوگیا ہے کہ عوام کو اس طرح کی سہولیات فراہم کئے بغیر ان کی تائید اور ووٹ حاصل کرنا ممکن نہیں رہ گیا ہے ۔ اس معاملے میں ہمیشہ مخالف جماعتوں کو بی جے پی نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور بی جے پی کے چاپلوس میڈیا گھرانوں اور تلوے چاٹنے والے اینکرس نے بھی ہمیشہ اس طرح کی سہولیات پر سوال اٹھائے ہیں اور ملک کی معیشت کی دہائی دی ہے ۔ ان چاپلوس اینکرس اور میڈیا چینلس نے کبھی بھی اڈانی اور امبانی جیسے صنعتکاروں کو ہزاروں کروڑ روپئے قرض معاف کرنے پر کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا ۔ اب جبکہ ملک کی پانچ ریاستوں میںا سمبلی انتخابات کا موسم بتدریج عروج پر پہونچ رہا ہے تو بی جے پی بھی خاموشی سے عوام سے اسی طرح کے وعدے کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ انتخابات میں کامیابی اور عوامی تائید حاصل کرنے کیلئے یہ ایک طرح سے دوہرا معیار اور ڈوغلا پن ہے ۔ سارے ملک میں 1000 روپئے میں گیس سلینڈر فراہم کرنے والی بی جے پی حکومت نے چھتیس گڑھ میں غریب عوام کو پانچ سو روپئے میں گیس سلینڈر فراہم کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ کانگریس نے تمام ہی پانچ ریاستوں میں سبھی عوام کو پانچ سو روپئے میں گیس سلینڈر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ شادی شدہ خواتین کو ماہانہ رقمی امداد کا بھی بی جے پی کی جانب سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ کانگریس پہلے ہی یہ وعدہ کرچکی ہے اور چھتیس گڑھ اور راجستھان جیسی ریاستوںمیں اس طرح کی اسکیمات پر عمل شروع ہوچکا ہے ۔ ان دونوں ہی ریاستوں میں پانچ سو روپئے میں گیس سلینڈر کی فراہمی بھی عمل میں آرہی ہے ۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی نے وعدہ کیا ہے کہ ایک لاکھ سرکاری جائیدادوں پر آئندہ دو سال میں تقررات عمل میں لائے جائیں گے ۔ یہ وعدہ ویسا ہی ہے جیسا نریندر مودی نے 2014 سے قبل کیا تھا کہ ہر سال دو کروڑ نوکریاں فراہم کی جائیں گی جبکہ بعد میں پکوڑے تلنے کو بھی روزگار قرار دیتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی تھی ۔
سوال یہ ہے کہ جب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس طرح کے اعلانات کئے جاتے ہیں تو بی جے پی یا خود وزیر اعظم نریندر مودی اسے مفت کی ریوڑی قراردیتے ہیں لیکن انتخابات کا وقت آتا ہے خود بھی اس طرح کے اعلانات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ جب غریب عوام کو پانچ سو روپئے میں گیس سلینڈر فراہم کیا جاسکتا ہے تو اب تک ان کی جیبوںپر ڈاکہ کیوںڈالا گیا ؟۔ اس کے علاوہ یہ سہولت صرف چھتیس گڑھ کے غریب عوام کیلئے کیوں ہے ۔ اسے سارے ملک میںکیوںنہیںلاگو کیا جاسکتا ؛؟۔ بی جے پی کو اس طرح کے سوالات کے جواب دینے چاہئیں اور یہ بھی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ مفت کی ریوڑیاں بانٹنا اس کیلئے کیوں ضروری ہوگیا ہے ۔ ان اعلانات کو مودی کی گیارنٹی قرار دیا جا رہا ہے ۔ لیکن اس سے قبل یہ جواب دینا ہوگا کہ نریندر مودی نے ہی ہر سال دو کروڑ نوکریاں اور روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ بی جے پی کو بھی اب کانگریس اور دوسری جماعتوںکے انتخابی منشور کی نقل کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے اور وہی وعدے کرنے پڑ رہے ہیں جن وعدوں کو بی جے پی کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اس سے ملک کی معیشت کمزور ہونے کے دعوے کئے گئے تھے ۔ بی جے پی کے چاپلوس اینکرس کی جانب سے بھی اب اس پر سوال نہیں پوچھے جائیں گے بلکہ یہ دہائی دی جائے گی کہ بی جے پی یا نریندر مودی غریبوں کے مسیحا بن گئے ہیں ۔
جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ان کے تعلق سے اب تک جو سروے سامنے آئے ہیں ان میں واضح ہوگیا ہے کہ پانچوں کی ریاستوں میں بی جے پی کو شکست ہوسکتی ہے ۔ کانگریس کا انتخابی مظاہرہ بہتر ہوگا اور اس کے نتیجہ میں آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس صورتحال میں بی جے پی کئی طرح کے مسائل کا شکار ہوگئی ہے اور یہ بھی بی جے پی کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے کہ نریندر مودی کی عوامی مقبولیت کا گراف گھٹتا جا رہا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی دوسری جماعتوں کے منشور کی نقل کرتے ہوئے عوام میں پہونچنا چاہتی ہے تاہم اس سے بی جے پی کے ڈوغلے پن اور دوہرے معیارات آشکار ہوگئے ہیں اور عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے ۔