بی جے پی کو بھی مسلمانوں کے ووٹوں سے دلچسپی

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ

مسلمانوں کا ساتھ اور مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر ہندوستانی سیاسی پارٹیوں کا وجود جھکولے کھاتا ہے ۔ اس حقیقت کو شائد اب بی جے پی نے بھی محسوس کرلیا ہے ۔ اس لیے 2014 کے انتخابات کے برعکس اس نے سال 2019 کے انتخابات میں مسلم رائے دہندوں کو بھی رجھانے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے آر ایس ایس بھی مسلمانوں کو قریب کرنے کی مہم پر ہے ۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بی جے پی کو اقتدار تک پہونچانے کے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے آر ایس ایس نے بھی محسوس کیا ہے کہ یہاں مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر بی جے پی کو اقتدار ملنا مشکل ہے لہذا مسلمانوں کو قریب کرنے کے لیے مسلم ’ راشٹریہ منچ ‘ کا قیام عمل میں لاتے ہوئے اس میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو رکنیت دی جارہی ہے ۔ بی جے پی نے ہندوستانی سماج میں مذہب کو استعمال کرتے ہوئے اسے اپنی جائے پناہ سمجھا اور اس کا سہارا لے کر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ لیکن ہمارے سماج میں تمام تر شعور بیداری کے باوجود ایسے افراد کی تعداد اب بھی کم نہیں ہے جہاں موقع پرست طبقات مذہب کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے حصول اقتدار کے ساتھ ساتھ دوام حکمرانی کے لیے اس کا استعمال کرتے ہوئے ذرا شرم محسوس نہیں کرتے ۔ تلنگانہ میں 17 لوک سبھا نشستوں کے منجملہ 4 حلقوں پر کامیاب ہونے کے بعد بی جے پی کو تلنگانہ کا اقتدار قریب دکھائی دینے لگا ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے تلگو دیشم کے 6 ارکان راجیہ سبھا کے منجملہ 4 کو پارٹی سے منحرف ہونے کی ترغیب دی ہے ۔ بی جے پی کو جنوبی ہند میں اپنے قدم مضبوط کرنے کی فکر ہے ۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں لوک سبھا کی جملہ 42 نشستیں ہیں ۔ پارٹی کو یقین ہے کہ اگر اس نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرلیے تو دونوں ریاستوں میں اس کا اقتدار ہوگا ۔ پارٹی کی اختیار کردہ حکمت عملی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے دیگر پارٹیوں کے قائدین کو اپنی صف میں شامل کرتے ہوئے پارٹی کو مضبوط بنانے میں ہی عقل مندی ہے ۔ تلگو دیشم اور کانگریس دونوں پارٹیوں کو دو تلگو ریاستوں میں زوال کا سامنا ہے ۔ ان پارٹیوں کے قائدین بھی اپنے سیاسی مستقبل کو لے کر فکر مند ہیں ۔ ایسے میں قومی پارٹی بی جے پی ہی ان کے لیے محفوظ فائدہ مند پناہ گاہ دکھائی دے رہی ہے ۔ ریڈی ، کما اور کاپو طبقات سے تعلق رکھنے والے قائدین کو بی جے پی میں شامل کرنے سے سال 2024 کے انتخابات میں بی جے پی کا اقتدار ہوگا ۔ جہاں تک دونوں تلگو ریاستوں کی حکمراں پارٹیوں تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور آندھرا میں وائی ایس آر کانگریس کا سوال ہے یہ دونوں پارٹیاں ، بی جے پی کی وفادار ہیں اور بی جے پی کو آسانی کے ساتھ اقتدار تک پہونچانے کی راہ ہموار کریں گی ۔ ایک منظم منصوبے کے ساتھ بی جے پی جنوبی ہند میں قدم مضبوط بنانے کی مہم پر ہے ۔ تلنگانہ کے قیام کے لیے ٹی آر ایس کی جدوجہد اور اس کے بعد ٹی آر ایس کو اقتدار نے بی جے پی کا کام آسان کردیا ہے ۔ مرکز اور تلنگانہ میں کانگریس دم توڑ رہی ہے اور آندھرا پردیش میں تلگو دیشم کا صفایا ہوچکا ہے ۔ یہاں سیاسی خلاء کو پر کرنے کا عظیم موقع مل رہا ہے تو بی جے پی دونوں تلگو ریاستوں میں اقتدار تک پہونچنے میں کامیاب کوشش کرے گی ۔ کانگریس اور تلگو دیشم کے کئی قائدین بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں ۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی کے اعلیٰ قائدین کو یقین ہے کہ عوام کے خاص کر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے لیڈرس اس کی صف میں آئیں گے کیوں کہ تلنگانہ میں کانگریس نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں 29 فیصد ووٹ لیے ہیں جب کہ آندھرا میں تلگو دیشم کو تقریبا 40 فیصد حاصل ہوئے اب یہ ووٹ بی جے پی کی جھولی میں ڈالے جانے کی مہم شروع ہوچکی ہے ۔ آر ایس ایس کا مسلمانوں کو قریب کرنے کا منصوبہ ہی اس تنظیم کے سیاسی عزائم کو آشکار کرچکا ہے ۔ مغربی بنگال میں بھی اس نے مسلمانوں کے ووٹ کی اہمیت کا اندازہ کرلیا ہے ۔ آندھرا میں بھی تلگو دیشم قائدین پر حملے اور جان لیوا واقعات نے تلگو دیشم کارکنوں کو بھی خوف زدہ کردیا ہے تو اب ان قائدین کے لیے بی جے پی کی آغوش ہی محفوظ سیاسی پناہ گاہ ہوگی ۔ مسلمانوں کو خوش کرنے ان کی دلجوئی کرنے سے ہی بی جے پی کو بھی ووٹ ملنا یقینی ہے ۔ تاہم بی جے پی کو دونوں تلگو ریاستوں میں با اثر سیاسی لیڈر کی بھی تلاش ہے ۔ اگرچیکہ تلنگانہ کے بی جے پی لیڈر کشن ریڈی کو وزیر داخلہ امیت شاہ کا نور نظر سمجھا جارہا ہے اور وہ ہی تلنگانہ میں بی جے پی کے متوقع چیف منسٹر ہوسکتے ہیں ۔ تلنگانہ میں اس سال مانسون کی کمی کے بعد کسان برادری کو جو نقصانات ہوں گے اور خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں امداد پہونچانے میں ٹی آر ایس حکومت ناکام ہوگی تو یہاں بی جے پی کی قومی قیادت تلنگانہ کے کسانوں کی مسیحا بن کر کام کرنے کا مظاہرہ کرے گی اور یہ ٹی آر ایس کے لیے شدید دھکہ ثابت ہوگا ۔ تلنگانہ میں اس سال مانسون ناکام ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ حکام نے پانچ سال میں سب سے زیادہ بدترین صورتحال اس سال رونما ہونے کی پیش قیاسی کی ہے ۔ ایک طرف مانسون کی کمی اور دوسری طرف کسانوں کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے تو مرکز کی حکمراں پارٹی فنڈس کی اجرائی میں کوتاہی سے کام لے کر ٹی آر ایس کو کمزور کرسکتی ہے ۔ بہر حال آنے والے چار سال کے دوران جنوبی ہند میں بی جے پی کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے گا ۔ ایسے میں مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہوگی یہ غور طلب ہوگی ۔ مرکز سے لے کر ریاستوں تک زعفرانی قوتوں کا بول بالا ہے لیکن مسلمانوں نے ہوش کے ناخن لینے کی زحمت نہیں کی ہے ۔ مسلمانوں کے تعلق سے مجموعی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ ’ حقائق ‘ کو اتنا اہم خیال نہیں کرتے جتنی اہمیت جذبات کو دیتے ہیں ۔ محض جذبہ کے بل بوتے پر ایک ہی پارٹی کی چالاکیوں کا شکار ہوتے آرہے ہیں ۔ مسلمانوں کی فکر رکھنے والے کئی مفکرین اپنی معصوم اور تکنیکی وسائل کے لحاظ سے بے دست و پا قوم کو اس بات کا برسوں سے درس دیتے آرہے ہیں کہ دین کی دعوت کو لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھاجاؤ لیکن اس چھا جانے کی خواہش سے کیا کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ وسائل اور ٹکنالوجی سے محروم رہنے والے مسلمانوں کو بے وقوفی کے جال میں پھانس کر مختلف پارٹیوں نے مسائل سے ہی دوچار کردیا ہے ۔ اب بی جے پی کو آزمانے کی بات کرنے والے اپنی روایت پسند تقریروں کے ذریعہ مسلمانوں کو مزید گمراہ کریں گے اب سوال یہ ہے کہ آیا مسلمان یوں ہی گمراہ ہوتے رہیں گے ۔۔ ؟
kbaig92@gmail.com