بی جے پی کو فرقہ وارانہ ایجنڈہ سے روکنے میں چندرا بابو نائیڈو کامیاب

   

چار فیصد مسلم تحفظات کو کوئی خطرہ نہیں، اقلیتی رائے دہندوں پر اہم پارٹیوں کی توجہ ، تلگو دیشم کو برتری کی پیش قیاسی
حیدرآباد ۔ 29 ۔ مارچ (سیاست نیوز) لوک سبھا چناؤ میں کامیابی کیلئے بی جے پی ملک بھر میں نفرت کے ایجنڈہ پر کاربند ہیں لیکن آندھراپردیش میں تلگو دیشم پارٹی نے بی جے پی قیادت کو متنازعہ موضوعات سے روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ آندھراپردیش میں لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلی چناؤ کیلئے انتخابی مہم عروج پر ہے اور این ڈی اے اتحاد کو برسر اقتدار وائی ایس آر کانگریس پارٹی پر برتری دکھائی دے رہی ہے۔ صدر تلگو دیشم این چندرا بابو نائیڈو جو متحدہ آندھراپردیش میں چیف منسٹر کے طور پر اقلیتوں میں کافی مقبول رہے ہیں، انہوں نے آندھراپردیش کے اقلیتی رائے دہندوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے بی جے پی کو فرقہ وارانہ ایجنڈہ سے روکنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ بتایا جاتاہے کہ جگن موہن ریڈی کو شکست دینے کیلئے جب بی جے پی نے تلگو دیشم اور جنا سینا کو مفاہمت کی پیشکش کی تو چندرا بابو نائیڈو نے متنازعہ موضوعات کے بارے میں سوال اٹھائے۔ قومی سطح پر مذاکرات کے دوران بھی چندرا بابو نائیڈو کا سخت موقف تھا کہ آندھراپردیش کی انتخابی مہم میں متنازعہ موضوعات کو نہ چھیڑا جائے۔ بی جے پی قائدین انتخابی مہم میں ایسا کوئی بھی مسئلہ نہ اٹھائیں جس سے اقلیتوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ آندھراپردیش میں قدم جمانے کیلئے بی جے پی نے نائیڈو کی شرائط کو تسلیم کرلیا ۔ چندرا بابو نائیڈو انتخابی مہم کے دوران اقلیتوں سے اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ انہوں نے بی جے پی سے سیاسی مقاصد کے تحت مفاہمت کی ہے جبکہ بی جے پی ایجنڈہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کی صورت میں ریاست کی تر قی کے لئے مرکز کے تعاون کی ضرورت رہے گی ، لہذا چندرا بابو نائیڈو نے ریاست کے مفادات کے تحفظ کے لئے بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آندھراپردیش میں اقلیتی رائے دہندوں کی تعداد مجموعی آبادی میں 8 تا 9 فیصد ہے اور 175 اسمبلی حلقہ جات میں تقریباً 40 حلقہ جات ایسے ہیں جہاں اقلیتوں کی تائید کسی بھی پارٹی کی کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کو گزشتہ پانچ برسوں میں اقتدار سے دوری کا تلخ تجربہ رہا۔ ایک طرف اسمبلی اور لوک سبھا نے تلگو دیشم کو کم نشستوں پر کامیابی ملی تو دوسری طرف انحراف کی حوصلہ افزائی سے پارٹی ارکان کی تعداد میں مزید کمی ہوئی۔ نائیڈو تنہا مقابلہ کے ذریعہ کوئی جوکھم مول لینا نہیں چاہتے ، لہذا انہوں نے جنا سینا اور بی جے پی سے مفاہمت کرلی۔ بی جے پی کو لوک سبھا کی 6 اور اسمبلی کی 10 نشستیں الاٹ کی گئی ہیں جبکہ جنا سینا لوک سبھا کی 2 اور اسمبلی کی 21 نشستوں پر مقابلہ کرے گی۔ اسمبلی میں اکثریت کیلئے 88 ارکان کی تائید ضروری ہے ۔ الیکشن سے قبل قومی اور ریاستی سطح پر کئے گئے مختلف سروے تلگو دیشم کے حق میں ہیں۔ قومی نیوز چیانلس نے لوک سبھا کی 25 نشستوں میں تلگو دیشم اور اس کی حلیف جماعتوں کو 20 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کو یقین ہے کہ ان کی پارٹی اپنے دم پر 144 نشستوں پر مقابلہ کرتے ہوئے کم از کم 120 پر کامیابی حاصل کرے گی۔ الیکشن میں اقلیتوں کی تائید کی اہمیت کے پیش نظر چندرا بابو نائیڈو اور جگن موہن ریڈی دونوں نے اقلیتی علاقوں میں مہم میں اضافہ کیا ہے ۔ گزشتہ دنوں چندرا بابو نائیڈو نے کدری علاقہ میں مسلمانوں کے ساتھ اجتماعی دعوت افطار میں شرکت کی جہاں مقامی علماء نے نائیڈو کی تائید کا اعلان کیا۔ چندرا بابو نائیڈو نے کہاکہ 1995 سے 2004 تک متحدہ آندھراپردیش میں تلگو دیشم حکومت نے اقلیتوں کی بھلائی کیلئے کئی اسکیمات کا آغاز کیا۔ انہوں نے تلنگانہ اور آندھراپردیش میں دو علحدہ حج ہاؤز کی تعمیر کا حوالہ دیا ۔ نائیڈو نے واضح کردیا کہ بی جے پی سے مفاہمت کے نتیجہ میں چار فیصد مسلم تحفظات کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ امیت شاہ نے تلنگانہ میں ایک سے زائد مرتبہ اعلان کیا کہ بی جے پی برسر اقتدار آنے پر مسلم تحفظات کو ختم کردیا جائے گا۔ چندرا بابونائیڈو نے بی جے پی قائدین کو مسلم تحفظات کے خلاف بیان بازی سے روک دیا ہے۔ نائیڈو نے مسلمانوں کو تیقن دیا کہ نہ صرف تحفظات پر عمل ہوگا بلکہ اقلیتی بہبود کیلئے بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ آندھراپردیش میں اقلیتوں کا رجحان تلگو دیشم کی طرف ہے اور وہ چندرا بابو نائیڈو کو اقتدار کا ایک مو قع دینا چاہتے ہیں۔ 1