بی جے پی ۔ بی آر ایس کی تکرار

   

اے دوست زندگی تو مسلسل جہاد ہے
بس ایک حادثہ ہی میں چہرہ اتر گیا
ملک کی دوسری چند ریاستوںکی طرح تلنگانہ میںبھی جاریہ سال کے اواخر تک اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابات سے قبل ویسے تو ہر ریاست کا ماحول گرما گرم ہوجاتا ہے ۔ سیاسی مباحث اور تکررار شروع ہوجاتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر تنقیدیں ‘ الزامات اور جوابی الزامات کاسلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے ۔ ایک دوسرے کو عوام سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تاہم تلنگانہ کی سیاست کی بات سب سے الگ ہی دکھائی دیتی ہے ۔ ریاست میں وقفہ وقفہ سے کچھ حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے تھے ۔ ان انتخابات کے ذریعہ بی جے پی نے خود کو ٹی آرایس ( موجودہ بی آر ایس) کی متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ پارٹی کو احساس ہے کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہوئی ہے تاہم حقیقی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے ۔ بی جے پی اور بی آر ایس میں ایک دوسرے کے تعلق سے جو بیان بازیاں چل رہی ہیں اور اہل د وسرے پر جو تنقیدیں کی جا رہی ہیں وہ دونوں ہی جماعتوں کی حکمت عملی کا حصہ دکھائی دیتی ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہوئے عوام میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ریاست میں اصل مقابلہ ان دونوں کے درمیان ہی ہے ۔ حالانکہ ابھی انتخابات کیلئے چند ماہ کا وقت باقی ہے لیکن جو سرگرمیاں چل رہی ہیںان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات کے پیش نظر ہی یہ بیان بازیاں بھی تیز ہگئی ہیںاور ان میںمزید شدت بھی پیدا ہوسکتی ہے ۔ بی آر ایس ریاست میں برسر اقتدار ہے تو بی جے پی کو مرکز میں اقتدار حاصل ہے ۔ ایسے میں دونوں جماعتیں ریاست اور ریاست کی ترقی پر مباحث کرنے اور ایک دوسرے کے رول کے بارے میں بات کرنے کی بجائے ایسے موضوعات پر مباحث میں مصروف ہو رہی ہیں جن کا عوام کی ترقی اور بہتری سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حالانکہ وقفہ وقفہ سے دونوں اپنی اپنی کارکردگی کو عوام میںپیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ صرف وہی عوام کی بہتری کیلئے سنجیدہ ہے لیکن جو مسائل اب بھی موجود ہیں اس کے تعلق سے کوئی بھی سوالات کے جواب دینے کو تیار نہیں ہے ۔
جس وقت سے ٹی آر ایس کو بی آر ایس میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس وقت سے ہی دونوں کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں تیز ہوگئی ہیں۔ ٹی آرا یس کے ورکنگ صدر کے ٹی راما راو بی جے پی قائدین سے کئی سوال کر رہے ہیں اور ان سے جواب طلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن بی جے پی کے قائدین کسی سوال کا جواب دینے اور وضاحت کرنے کی بجائے مسئلہ کا رخ ہی بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ریاست کے ترقیاتی پراجیکٹس میں مرکزی فنڈز کی اجرائی پر مسلسل سوال کئے جا رہے ہیں۔ ریاست کے واجب الادا فنڈز کی اجرائی کیلئے نمائندگی کی جا رہی ہے لیکن مرکز سے اس معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی ہے ۔ بی آر ایس کا الزام ہے کہ بی جے پی ریاست کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہی ہے اور مناسب فنڈز جاری نہیں کئے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ مرکزی فنڈز جاری ہو رہے ہیں لیکن بی آر ایس حکومت اسے دوسرے کاموں میں استعمال کر رہی ہے ۔ مرکزی حکومت کی اسکیمات کو ریاست میں نافذ کرنے میں بی آر ایس حکومت سے تعاون نہیں مل رہا ہے ۔ کئی دوسری پراجیکٹس بھی ریاستی حکومت کی لا پرواہی اور ٹال مٹول کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔ یہ دونوں کے الزامات ایک دوسرے کے خلاف جاری ہیں اور دونوں میں کوئی بھی جماعت کسی بھی الزام یا تنقید کا جواب دینے کو تیار نہیں ہے ۔ دونوں ہی جماعتیں صرف تنقیدوں کے ذریعہ خبروں میں برقرار رہنا ضروری سمجھتی ہیں۔
بی آر ایس کی جانب سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو بی جے پی کی جانب سے اس کا کوئی اور ہی جواب دیتے ہوئے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بی جے پی اگر کوئی سوال مرکزی اسکیمات کے نام پر کرتی ہے تو بی آر ایس اس پرواضح جواب دینے کی بجائے جانبداری برتے جانے کا الزام عائد کرتی ہے ۔ اس طرح دونوں ہی میڈیا میں توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں تاہم یہ بات ضرور ہے کہ یہ منفی حکمت عملی ہے ۔ مثبت سوچ کا حصہ نہیں کہا جاسکتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپسی چپقلش اور الزام تراشیوں کی بجائے حقائق کو پیش کرتے ہوئے عوام کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ یہی بہتر طریقہ ہوسکتا ہے ۔