بے شمار مسائل میں گھرا ہندوستان

   

محمد ریاض احمد
وزیر اعظم نریندر مودی نے دوسری میعاد کے لئے عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے ساتھ ہی اعلان کیا کہ ملک کی موجودہ معیشت 2.7 کھرب ڈالرس ہے اور 2024 تک ان کی حکومت معیشت کو پانچ کھرب ڈالرس تک پہنچا دے گی لیکن ان کی حکومت کی دوسری میعاد میں دو ماہ مکمل ہوچکے ہیں اور اس عرصہ میں معیشت کو آگے بڑھانے کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ ملک کو تباہی و بربادی کی جانب ڈھکیلنے والے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ مودی حکومت میں ملک کی معیشت بہتر بنانے کے اقدامات کرنے کی بجائے حکمراں جماعت نے پارلیمنٹ میں بڑی تیزی کے ساتھ کئی ایک بلز پیش کرتے ہوئے انہیں منظور کروالئے۔ ان بلز کی سرعت کے ساتھ منظوری پر حکومت کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور اس کی زیر قیادت این ڈی اے کی جماعتوں کو غیر معمولی اکثریت حاصل ہوئی۔ بی جے پی نے اپنے بل بوتے پر 303 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور این ڈی اے کی جماعتوں کو ملا کر تقریباً 355 نشستیں حکمراں اتحاد کو حاصل ہوئیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ لوک سبھا انتخابات میں صدارتی طرز حکومت کے لئے رائے دہی ہوئی ہو جہاں صرف اور صرف نریندر مودی ہی نظر آرہے تھے۔ انتخابات سے پہلے جو بھی پیش قیاسیاں کی گئیں وہ غلط ثابت ہوئیں۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ عوام مودی حکومت کی جانب سے بڑھائی گئی مہنگائی، نوٹ بندی جیسے اقدامات سے ناراض ہیں لیکن رائے دہی کے بعد جب نتائج تو وہ بالکل حیران کن تھے۔ بعد میں اپوزیشن اور سماجی جہد کاروں نے الزام عائد کیا کہ مودی حکومت کی کامیابی بے شک ایک بڑی کامیابی ہے لیکن یہ عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ حاصل کی گئی ہے۔ ان مشینوں میں الٹ پھیر کی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی اہم بی جے پی قائدین بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ تاہم اس بارے میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اگر تمام کے تمام قائدین کامیاب ہو جاتے تو پھر ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کا شک سچ میں بدل جاتا۔ بہرحال نتائج سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ عوام نے مودی اور ان کی حکومت پر بھروسہ کیا ہے۔ ویسے بھی جب عوام بھروسہ کرتے ہیں تو کسی بھی سیاسی قائد اور اس کی حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ نریندر مودی کا جہاں تک سوال ہے انہیں وراثت میں کانگریس کی چھوڑی ہوئی اچھی معیشت اور پر امن ہندوستان حاصل ہوا اور اس کی حکمرانی ملی جس کے لئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مودی کافی خوش قسمت ہیں لیکن مودی جی نے جس انداز میں اپنی پہلی میعاد میں ملک گیر فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اس کی گنگا جمنی تہذیب میں سیکولرازم کو نقصان پہنچایا ہے اس کا سلسلہ اپنی دوسری میعاد میں بھی جاری رکھا ہے۔ حکومت کا ملنا ، ایک نہیں دو مرتبہ اقتدار میں آنا مودی اور بی جے پی کی خوش قسمتی ہے لیکن ملک کے جو موجودہ حالات ہیں اس پر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ عوام کی بدقسمتی ہے کہ اسے ایسی حکومت نصیب ہوئی ہے جو ملک کو درپیش اہم مسائل کو حل کرنے کی بجائے مذہبی بنیادوں پر بلز پیش کرکے یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ ہندوؤں کے کاز کی چیمپین ہے اور قوم پرست ہے۔ مودی حکومت کے ساتھ ساتھ بی جے پی قائدین کو بھی سب سے پہلے ہندو مذہب، اس کی تعلیمات، ہندوستانیت اور قوم پرستی کے معنی و مطالب سمجھ لینے چاہئے۔ مودی حکومت نے بڑی چالاکی، عیاری اور مکاری کے ساتھ ساتھ کانگریس میں شامل غداروں کی غداری اور بعض اپوزیشن جماعتوں کی ہندوستان کی جمہوریت سے بے وفائی کے ذریعہ طلاق ثلاثہ بل نہ صرف لوک سبھا بلکہ راجیہ سبھا میں بھی منظور کروانے میں کامیاب رہی۔ آج ہندوستان کے لئے طلاق ثلاثہ کا مسئلہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ ایک طرف مودی حکومت مسلم خواتین کو انصاف دلانے کے دعوے کرتی ہے لیکن اس کے زیر قیادت ریاستوں میں مسلم خواتین کے شوہروں، ان کے بیٹوں، ان کے باپوں کو جانوروں کے نام یا تحفظ گاو کے نام پر قتل کیا جارہا ہے۔

دوسری طرف چوری اور سرقہ کے شعبہ میں یا جھوٹے الزامات حد تو یہ ہیکہ روٹی چرانے کے الزام میں غریب دلتوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ جہاں تک طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ہے مسلم خواتین اسے کوئی مسئلہ نہیں سمجھتیں۔ یہ صرف اور صرف سیاسی دکانات چمکانے اور اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے رچی گئی سازش کا ایک حصہ ہے جس کے ذریعہ مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی کا دم بھرا جارہا ہے۔ سچ یہ ہیکہ مودی حکومت کو مسلم خواتین کے مسائل سے دلچسپی ہے اور نہ ہی ہندو معاشرہ کی بہتری کی اسے کوئی فکر ہے۔ اگر مودی حکومت حقیقت میں خواتین کو بااختیار بنانے سنجیدہ ہوتی تو سب سے پہلے پارلیمنٹ میں ان ہندو مردوں کے خلاف بل پیش کرتی جو اپنی بیویوں کی خواہشات و ارمانوں کا قتل کرکے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہیں۔ آج ہندوستان میں کم از کم 20 لاکھ ایسی ہندو خواتین ہیں جنہیں ان کے شوہروں نے بے یار مددگار چھوڑ دیا ہے اور ان میں شاید بے شمار بازار حسن کی زینت بن چکی ہیں جہاں بوالہوس درندے انہیں نوچ کھا رہے ہیں۔ اس طرح یہ خواتین روز مرتی اور جیتی ہیں۔ ہمارے وزیر قانون روی شنکر پرساد اس طرح کے بل پیش کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے خوشی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کسی جھونپڑ پٹی میں پیدا ہوئے اس معصوم لڑکے کو مٹی کا رنگین کھلونا دے دیا گیا ہو جو کھلونے کے لئے ترستا تھا۔ ویسے بھی ہم نے بچپن میں پڑا تھا کہ کم ظرف معمولی سی خوشی پر بھی بہت زیادہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شیخ چلی کی طرح شیخی بگھارنے لگتے ہیں۔ اگر طلاق ثلاثہ کی بجائے مودی حکومت ہندو خواتین کو ان کی شوہروں کی ناانصافی اور ظلم و بربریت سے بچانے کے لئے بل پیش کرتی تو یہ ہندوستانی خواتین پر ایک بہت بڑا احسان ہوتا۔ آج بھی ہندوستان میں دیوداسی کے نام پر خواتین کا استحصال کیا جارہا ہے۔ شمالی ہند کی بعض ریاستوں میں کمسن لڑکیوں کو شادی کے منڈپ میں زبردستی بٹھادیاجاتا ہے۔ کھیلنے کودنے کی اس عمر میں انہیں ماں بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ کاش مودی حکومت اس رجحان کے خلاف بل پیش کرتی تو بہتر ہوتا۔ ملک میں خاص طور پر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں کمسن لڑکیوں کی عصمت ریزی، ذات پات کے نام پر انسانوں کے قتل، ان پر ظلم و زیادتی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اگر مودی حکومت اس طرح کے واقعات جو عالمی سطح پر ہندوستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ان کے خلاف بل پیش کرتی تو اچھا ہوتا۔ حال ہی میں ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح اترپردیش کے ایک بی جے پی ایم ایل اے کے ہاتھوں عصمت ریزی کا شکار ہوئی کم عمر لڑکی کو حادثہ ظاہر کرتے ہوئے منصوبہ بند سازش کے تحت قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے یہاں لفظ ’’مبینہ‘‘ اس لئے استعمال نہیں کیا کیونکہ متاثرہ لڑکی نے خود ببانگ دہل یہ الزام عائد کیا تھا کہ بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر نے اس کی اس وقت عصمت ریزی کی تھی جب وہ ملازمت کے لئے اس سے ملاقات کرنے گئی تھی۔ اس واقعہ کے بعد جب لڑکی بی جے پی ایم ایل اے کے سیاہ کرتوت کا بھانڈا پھوڑتی ہے تو اس کے چند دن بعد پولیس اسٹیشن میں متاثرہ لڑکی کے باپ کی مشتبہ حالت میں موت ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس واقعہ کا اہم گواہ بھی مشتبہ حالت میں موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔ اب ساری دنیا نے دیکھا کہ متاثرہ لڑکی جیل میں بند اپنے انکل سے ملاقات کے لئے دو خاتون رشتہ داروں اور وکیل کے ساتھ موٹر میں سوار ہوکر جاتی ہے تب ایک ایسا ٹرک جس کی نمبر پلیٹ کو سیاہ کردیا گیا تھا ان کی کار کو ٹکر دے دیتا ہے جس میں دو خواتین کی موت ہو جاتی ہے۔ دو میں سے ایک مقدمہ کی کلیدی گواہ ہے۔ متاثرہ لڑکی اور اس کا وکیل بھی شدید زخمی ہو جاتے ہیں اور اسپتال میں دونوں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ یہ اتفاق تو نہیں ہوسکتا ایک ٹرک جو سارے شہر میں اپنے نمبر پلیٹ پر سیاہی لگاکر گھوم رہا ہے اور اترپردیش کی بہادر پولیس کی نظریں اس پر نہیں پڑتیں یہ تو یقین آنے والی بات نہیں۔ بہرحال اس واقعہ کو یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بی جے پی کا ایک قانون ساز اس طرح کی حرکت کرسکتا ہے تو بی جے پی سے کس طرح اچھی امید کی جاسکتی ہے۔ اگر بی جے پی حکومت حقیقت میں خواتین کی ہمدرد ہے تو اسے سب سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کی بیوی جشودا بین کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔ شادی کے ساتھ ہی مودی جی نے اپنی بیوی کو رام رام کہہ دیا تھا تب سے آج تک کیا وہ ایک عورت کے ناطے نہیں تڑپ رہی ہوگی۔ وزیر اعظم کو مسلم خواتین کو انصاف دلانے سے پہلے اپنے گھر میں انصاف کرنا ہوگا۔

صرف جشودا بین سے ہی نہیں بلکہ وزیراعظم کو احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری سے انصاف کرنا ہوگا۔ ان کے شوہر کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ آج باوقار عہدوں پر فائز سیاسی رہنماؤں کو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ آئینہ میں اپنا جائزہ لیں تو وہاں انہیں ذکیہ جعفری کو بیوہ بنانے والے قاتل کا چہرہ نظر آئے گا۔ کوثر بی کی عصمت ریزی اور اسے نذر آتش کرکے سہراب الدین شیخ مقدمہ میں بچنے کی کوشش کرنے والا مکار چہرہ بھی دکھائی دیگا۔ گجرات فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے قاتل کی تصویر بھی ابھر آئے گی۔ عین عید رمضان کے وقت حافظ جنید جیسے کمسن لڑکے کو شہید کرکے اس کے ماں باپ کو زندگی بھر رونے پر مجبور کرنے والے درندے بھی دکھائی دیں گے۔ جھارکھنڈ کے 14 سالہ امتیاز کو صرف مذہب کی بنیاد اور تحفظ گاؤ کے نام پر درخت پر زندہ پھانسی پر لٹکانے والے قاتلوں کا ٹولہ بھی دکھائی دیگا۔ غرض یہ لوگ جب جب آئینہ میں دیکھیں گے انہیں قاتلوں، لٹیروں، ظالموں ، غداران وطن اور انگریزوں کے مخبروں کا عکس دکھائی دیگا۔
بہرحال ہم بات کررہے تھے راجیہ سبھا میں طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کے بارے میں۔ اس سلسلہ میں مودی، امیت شاہ جوڑی نے غیر معمولی سیاسی کھیل کھیلتے ہوئے اپوزیشن کو بے حال کردیا ہے۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے اس کی بدقسمتی یہ ہیکہ اس کی کشتی میں ہمیشہ ایسے بے وفا اور غدار قائدین سوار رہے ہیں جنہوں نے تاریخ میں ابن الوقتی کا بدترین ثبوت دیتے ہوئے انحراف کی بدترین مثال قائم کی۔ ٹی آر ایس، جے ڈی یو، اے آئی اے ڈی ایم کے، بیجو جنتادل اور دیگر جماعتوں نے بھی واک آؤٹ اور رائے دہی میں حصہ نہ لیتے ہوئے بالواسطہ طور پر طلاق ثلاثہ بل کی تائید کی جس کے نتیجہ میں راجیہ سبھا میں بھی جہاں این ڈی اے کو اکثریت حاصل نہیں ہے آج پارلیمنٹ میں 36 بلز پیش اور منظور کرنے کی نہیں بلکہ سب سے انصاف کی ضرورت ہے۔ اگر حقیقت میں ہندوستان کو معاشی طاقت بنانا ہے تو نریندر مودی حکومت کو اس طرح اوچھی حرکتوں سے گریز کرتے ہوئے سب سے پہلے قومی مجموعی پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔ بے روزگاروں کو پر کشش تنخواہوں کے ساتھ روزگار فراہم کرنا ہوگا۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنا ہوگا۔ ملک میں اگرچہ کئی قسم کی دہشت گردی کا دور دورہ ہے لیکن معیشت کے لئے ٹیکس دہشت گردی کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ اسی طرح ملک میں امن و استحکام لانا ہوگا۔ برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور ہندوستانی فرم کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنانا ہوگا۔ سب کا ساتھ سب وکاس سب کا وشواس جیسا نعرہ دینے والے مودی جی کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ہماری معیشت فی الوقت عروج کی بجائے زوال کی طرف آرہی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ملک کے موجودہ حالات اور حکومت کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے فارن پورٹ پولیو انوسٹرس یا سرمایہ کاروں نے ہندوستانی سرمایہ مارکٹ سے صرف جولائی میں 3758 کروڑ روپے نکال لئے ہیں۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہمارے ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com