بے وجہ گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا ہے

   

کورونا کا قہر … عوام بے حال … حکومت فرار
تبلیغی مرکز پر سیاست … کمبھ میلہ پر سناٹا کیوں؟

رشیدالدین
کیا ہندوستان میں کسی حکومت کا وجود ہے؟ کیا ملک میں کسی حکومت کی ضرورت باقی ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو موجودہ حالات میں ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کسی کا وجود ہو تو اس کا احساس بھی ہونا چاہئے ۔ اگر وجود کا احساس ہی نہ ہو تو وجود بے معنیٰ ہوجائے گا ۔ ایسے میں کسی کا ہونا یا نہ ہونا دونوں برابر تصور کئے جائیں گے۔ اگر اس بات کو آسان پیرائے میں کہا جائے تو یوں ہوگا کہ انسانی جسم کے وجود کا احساس روح کی موجودگی سے ہوتا ہے۔ جب تک جسم میں روح باقی رہے ، جسم زندہ تصور کیا جاتا ہے اور جب روح نکل جائے تو جسم مردہ قرار دیا جاتا ہے ۔ جسم اور روح کا رشتہ زندگی کی علامت ہے لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو روح کے باوجود بھی عملاً مردہ کہے جاسکتے ہیں ۔ وہ اس لئے کہ زندگی کا احساس دلانے کیلئے انسان کو متحرک ہونا پڑتا ہے۔ ایسا جسم جو روح کے باوجود بے حس ہو ، اسے زندہ لاش کہیں گے ۔ ملک میں کورونا وباء کی سنگین اور دن بہ دن بے قابو صورتحال نے ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ آیا ملک میں کسی حکومت کا وجود ہے یا نہیں ۔ کورونا کی وباء سے نمٹنے کے معاملہ میں مرکز اور کسی بھی ریاست کی حکومت کا وجود نہیں کے برابر ہے۔ ایک طرف حکومتوں کی بے حسی اور دوسری طرف عوام کی من مانی نے حکمرانی کا تصور ختم کردیا ہے۔ ہر شہری خود مختار ہوچکا ہے اور اسے وباء کے جان لیوا ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور حکومتیں بھی عوام کے آگے بے بس ہوچکی ہیں۔ حکومتوں اور عوام کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کے پاس و لحاظ کی کوئی پرواہ نہیں ۔ جس کے نتیجہ میں کورونا موت کا ننگا ناچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ، کمال تو یہ ہے کہ صاحب اقتدار اپنے اختیارات اور احکامات پر عمل کر کے دکھائے ۔ جب کوئی حکومت عوام پر کنٹرول کرنے میں ناکام رہے تو اسے اقتدار پر برقراری کا کوئی اخلاقی حق نہیں۔ حکومت چلانے کیلئے جملہ بازی اور الفاظ کی تک بندی اور دھواں دھار تقاریر کی نہیں بلکہ عزم ، حوصلے اور صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی نااہل کو اقتدار دیں تو وہ مزید تباہی کا سامان کرے گا۔ لہذا بزرگوں کا قول ہے کہ اہلیت کے اعتبار سے ذمہ داری دی جائے ۔ کورونا کیسیس میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ، ہر کسی کے لئے تشویش کا باعث ہے اور ماہرین نے دوسری لہر کو زیادہ مہلک اور ملک کے حالات کو بد سے بدتر قرار دیا ہے لیکن مرکز اور متاثرہ ریاستوں میں حکومتوں کا حال دیکھیں تو اندازہ ہوگا جیسے حکومتوں کا کوئی وجود نہیں۔ کورونا نے دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور کئی ممالک وباء پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔ چین جو کہ کورونا کی جنم بھومی ہے، وہاں حالات معمول پر ہیں کیونکہ وہاں حکومت اور عوام دونوں نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا ہے ۔ ایسے ممالک جنہوں نے کورونا کو مذاق سمجھا اور ویکسین کو نجات دہندہ تصور کیا وہ دوسری اور تیسری لہر کی زد میں ہیں۔ ہندوستان میں دوسری لہر کا قہر جاری ہے لیکن حکومتیں اور عوام دونوں نتائج سے بے پرواہ خواب غفلت کا شکار ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ غافل کی مدد خدا بھی نہیں کرتا۔ ٹھیک اسی طرح ہندوستان میں وباء نے ہر کسی کے ہوش اڑادیئے ہیں اور ہر شخص خود کو موت کے قریب تصور کر رہا ہے ۔ اسلام میں انسان کو موت کو یاد کرنے کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ وہ خدا سے قریب ہو اور تقویٰ والی زندگی گزارے لیکن موجودہ حالات میں موت کا خوف تو ہے لیکن انسان رب چاہی زندگی پر من چاہی زندگی کو ترجیح دے رہا ہے ۔ گزشتہ سال مارچ میں پہلی لہر کے آغاز کے بعد ملک بھر میں طویل لاک ڈاؤن نافد کیا گیا تھا ۔ حالانکہ غیر منصوبہ بند لاک ڈاون کے نتیجہ میں عوام کو زحمت اٹھانی پڑی۔ لاکھوں افراد بیروزگار ہوگئے اور معیشت اتھل پتھل ہوگئی۔ عوام پہلی لہر کے اثرات سے ابھر نہیں پائے تھے کہ دوسری لہر نے دستک دی۔ ملک میں ایک دن میں دو لاکھ سے زائد پازیٹیو کیسیس کا اندراج صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے لیکن حکومت اور عوام کی سطح پر من مانی نے افراتفری کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ حکومتوں اور عوام کے درمیان کوئی تال میل اور ربط باقی نہیں رہا اور کوئی بھی کسی کو سننے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ گزشتہ سال کم کیسیس کے باوجود لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا اور تحدیدات کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ اب جبکہ تحدیدات کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے لیکن مرکز اور ریاستی حکومتوں نے عوام کو کورونا کے آگے ڈال دیا ہے ۔ جان بوجھ کر عوام کو موت کے منہ میں ڈھکیلنا کہیں آبادی میں کمی کی منصوبہ بندی تو نہیں ؟ حکومتوں نے اپنی ذمہ داری عوام پر ڈال دی ہے اور عوام چاہتے ہیں کہ ان کے تعاون کے بغیر حکومت وباء پر قابو پالے۔ حکومتوں میں شامل افراد اور صاحب اقتدار سیاستداں اپنے ماتحت عہدیداروں کے اشارہ پر کام کر رہے ہیں۔ جب عوام کو سب کچھ کرنا ہے تو پھر حکومتوں کا وجود کس کام کا ۔ حکومت کو ذمہ داری کے بارے میں آخر کون احساس دلائے گا ۔ صاحب اقتدار افراد کو عوام کی زندگی سے زیادہ الیکشن کی فکر ہے ۔ ہزاروں افراد کے ساتھ ریالیوں اور جلسوں کے ذریعہ کورونا قواعد کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ قائدین کو عوام کی زندگی اور موت سے زیادہ سیاسی فائدہ کی فکر ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کو دن رات یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کو کس طرح اقتدار سے بے دخل کیا جائے ۔ آسام میں دوسری مرتبہ اقتدار میں واپسی کیسے ہو ۔ مرکز کا یہ حال ہے تو تلنگانہ حکومت بھی کسی سے کم نہیں ۔ یہاں بھی الیکشن کا سیزن چل رہا ہے ۔ وباء میں تیزی کے باوجود یکے بعد دیگرے چناؤ کا اعلان کیا جارہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تعلیمی ادارے بند ہیں اور امتحانات منسوخ کئے جارہے ہیں لیکن الیکشن ملتوی کرنے تیار نہیں ۔ ہمیں یہ بات دہرانی پڑ رہی ہے کہ تعلیمی ادارے کورونا کا شائد پسندیدہ مقام ہیں جبکہ الیکشن کے نام سے کورونا گھبراتا ہے ۔
حالات راحت کے ہوں یا مصیبت کے ، بعض تنگ نظر اور متعصب ذہنیت رکھنے والوں کیلئے اسلام اور مسلم دشمنی شیوہ بن چکی ہے۔ گزشتہ سال کورونا کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ کر نفرت کا جو کھیل کھیلا گیا ، اس کے مضر اثرات آج بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے اکابرین اور جماعت سے وابستہ افراد پر کئی عدالتوں میں مقدمات جاری ہیں۔ بعض عدالتوں نے کورونا کیلئے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے والوں کو پھٹکار لگائی ہے۔ نفرت کی مہم کے تحت آج تک بھی تبلیغی جماعت کا مرکز مکمل بحال نہیں ہوا۔ کورونا کے نام پر مساجد کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اب تو اذان کی آواز بھی سماعتوں پر گراں گزر رہی ہے۔ فرقہ پرست تنظیموں اور ان کے آلہ کار گودی میڈیا نے حد و ادب کے تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی۔ عدالتوں کے کلین چٹ کے باوجود گلا پھاڑ پھاڑ کر نفرت کے ایجنڈہ کا پرچار کیا جارہا ہے ۔ ان دنوں اترپردیش کے متھرا میں کمبھ میلے کے دوران سینکڑوں افراد کورونا سے متاثر ہوئے۔ لاکھوں افراد مقدس اشنان کے لئے پہنچے لیکن کورونا وباء نے انہیں اپنا شکار بنایا۔ ابتدائی ٹسٹوں میں متاثرین کی تعداد کئی ہزار بتائی جارہی ہے ۔ یہ متاثرین یو پی اور دوسری ریاستوں میں کورونا پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ کمبھ میلہ کورونا کا ہاٹ اسپاٹ بن چکا ہے لیکن گودی میڈیا کی آنکھوں پر پردہ پڑچکا ہے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں کمبھ میلے کی خلاف ورزیوں پر ایک لفظ نہیں لکھا اور کہا گیا۔ تبلیغی مرکز کے معمولی واقعات پر تو آسمان سر پر اٹھالیا گیا تھا لیکن کمبھ میلے پر خاموشی اور سناٹا ہے۔ ملک بھر میں کورونا گائیڈلائینس کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی اجتماع پر پابندی عائد کی گئی لیکن حکومت نے کمبھ میلے میں لاکھوں افراد کو جمع ہونے کی اجازت دے دی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا قواعد پر عمل آوری میں امتیازی سلوک کیوں ؟ جو سلوک تبلیغی مرکز کے ساتھ کیا گیا ، وہی سلوک کمبھ میلے کے منتظمین کے ساتھ کیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ جب مقصد اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی بن جائے تو دوسروں کا ہنر بھی عیب لگتا ہے اور اپنے عیب کو ہنر قرار دیں گے۔ آخر یہ ذہنیت کب تک چلے گی۔ وائرس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے کورونا سے متاثر ہوئے تو کیا آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر کو بند کردیا جائے گا ؟ یوگی ادتیہ ناتھ بھی کورونا کا شکار ہوئے تو کیا ان پر یو پی میں کورونا پھیلانے کا الزام لگ سکتا ہے ؟ نفرت کے سوداگر جان لیں کہ وباء اور بیماری کسی کا مذہب پوچھ کر نہیں آتیں۔ رمضان المبارک میں مساجد کے کثیر اجتماع کے خلاف گودی میڈیا نے ابھی سے مہم شروع کردی ہے۔ اسے کمبھ میلہ کی خلاف ورزیوں اور ہزاروں افراد کے کورونا سے متاثر ہونے کی کوئی فکر نہیں۔ ہزاروں متاثرین جب ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پھیل جائیں گے تو پھر وائرس کا کیا حال ہوگا۔ نامور شاعر گلزار کی نظم کے دو شعر عوام کیلئے کسی پیام سے کم نہیں ؎
بے وجہ گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا ہے
موت سے آنکھیں ملانے کی ضرورت کیا ہے
سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا ہے قاتل
یوں ہی قاتل سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے