تاریخی عمارت کو منہدم کرنے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش

,

   

اب دواخانہ عثمانیہ کی باری !!

حیدرآباد۔ حکومت کی جانب سے دواخانہ عثمانیہ کی تاریخی عمارت کو منہدم کرنے رائے عامہ ہموار کی جانے لگی ہے اور اس کیلئے ہر ذرائع کا استعمال کیا جا رہا ہے۔گذشتہ دنوں بارش کے دوران عثمانیہ دواخانہ میں جو پانی بہنے اور عمارت میں داخل ہونے کے علاوہ ڈرینیج ابلنے کی جو ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں وہ عثمانیہ دواخانہ کی نئی عمارت کی ہیں اور ان میں صرف ایک تصویر تاریخی عمارت کی ہے جس میں وارڈ میں جمع پانی دکھایاگیا ہے۔ دواخانہ کے ڈاکٹرس کی جانب سے روزانہ ایک گھنٹہ علامتی احتجاجی مظاہرہ کیا جا رہاہے تاکہ دواخانہ کی قدیم عمارت کو منہدم کرکے نئی عمارت تعمیر کی جائے لیکن ماہرین آثار قدیمہ کا کہناہے کہ عثمانیہ دواخانہ میں جو مسائل ہیں ان کی بنیادی وجہ عدم نگہداشت ہے اور حکومت نے دواخانہ کی عمارت کو منہدم ہونے چھوڑ دیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے 2015 میں جب دواخانہ کو منہدم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا ماہرین نے سروے کرکے یہ رپورٹ تیار کی تھی کہ تاریخی عمارت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور حکومت چاہے تو قدیم عمارت کے علاوہ دواخانہ کے حدود میں وسیع و عریض اراضی پر ملٹی اسپشالیٹی ہاسپٹل تعمیر کرسکتی ہے لیکن حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی ۔ اب یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ انہدام کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ محترمہ سارہ میتھیوز نے بتایا کہ دواخانہ کی جو صورتحال ہے اس میں ڈاکٹرس کام کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اسی لئے وہ احتجاج کررہے ہیں لیکن اگر بہتر نگہداشت و بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہو تو ڈاکٹرس کو مسائل نہیں ہونگے۔ سرکردہ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو تاریخی عمارت منہدم کرنے کی بجائے اطراف دیگر جائیدادوں کو حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ صحت عامہ کی فراہمی کیلئے اس کی گنجائش ہے ۔ حکومت دواخانہ کی تاریخی عمارت کو محفوظ رکھتے ہوئے قلب شہر میں واقع دواخانہ عثمانیہ میں ملٹی و سوپر اسپشالیٹی دواخانہ کی تعمیر کو یقینی بناسکتی ہے ۔ڈاکٹرس نے 2018 میں بھی روزانہ کے اساس پر ایک گھنٹہ احتجاج 75دنوں تک کیا لیکن محکمہ صحت نے کوئی اقدامات نہیں کئے اور اب دوبارہ ڈاکٹرس کی جانب سے دواخانہ عثمانیہ کے انچارج سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر پانڈو نائک کو نوٹس دے کر تاریخی عمارت کے انہدام اور نئی تعمیر کیلئے احتجاج کے منصوبہ سے واقف کروایاگیا ہے۔