تاریخ سے سبق نہ سیکھنا

   

ہندوستانی سیاست کی تاریخ سے اگر موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے تو انہیں اپنے دور حکمرانی میں کی گئی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔ سابق نائب وزیراعظم اور بی جے پی کے سینئیر لیڈر ایل کے اڈوانی ان کے گرو سمجھے جاتے تھے ۔ آج انہیں خود بی جے پی نے کس کنارہ لگایا ہے یہ بھی ایک تاریخ کا سبق ہے ۔ نریندر مودی نے اپنی پانچ سالہ حکمرانی میں انجام دی گئی کارکردگی سے عوام کو واقف کروانے کے بجائے سابق حکمرانوں کی برائیاں کرنے لگے ہیں ۔ موجودہ لوک سبھا انتخابات میں ہندوستانی عوام کو یہ معلوم کرنے کی خواہش ہے کہ وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے اپنے وعدوں کو کس حد تک پورا کیا ہے ۔ نوجوانوں کو 2 کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ پر عوام کو جواب دینے کے لیے ان کے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں ۔ لیکن افسوس ہے کہ ایک کثیر الوجود ملک کا وزیراعظم اپنی بدترین حکمرانی سے شرمسار ہونے کے بجائے ملک کے سابق وزرائے اعظم خاص کر گاندھی خاندان کے ارکان کے خلاف سخت اور توہین آمیز الفاظ استعمال کررہے ہیں ۔ ہندوستان کے مواصلاتی نظام میں انقلاب لانے والے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے بارے میں نریندر مودی نے جس خراب اور تلخ انداز میں بیان دیا ہے اس پر آج سارے سیاسی حلقوں میں افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے جب کسی شخص کے پاس اپنے بارے میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہو تو وہ دوسروں میں برائیاں نکالتے ہوئے خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ نریندر مودی بھی یہی کوشش کررہے ہیں ۔ وزیراعظم مودی نے 2014 کے انتخابات میں 2 کروڑ ملازمتیں دینے کے وعدے کے ساتھ انتخاب لڑا تھا آج ملک کے نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہے ۔ بی جے پی کے منشور کا کلیدی وعدہ یہی تھا کہ ہندوستانی نوجوانوں کو بیروزگار رہنے نہیں دیا جائے گا ۔ رافیل معاہدہ میں بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کرنے والے مودی نے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو ہی رشوت خور قرار دیا ہے ۔ وزیراعظم مودی کے یہ ریمارک ملک کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کی توہین اور تذلیل ہے ۔ ان کے وقار کو ضرب پہنچانے کی کوشش قرار دے کر کانگریس سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی ہے ۔ کانگریس کی جانب سے عدالت میں داخل کردہ تازہ حلف نامہ میں کہا کہ مودی کی حالیہ تقاریر پارٹی کے سابق لیڈر کی توہین کے مترادف ہیں ۔ کانگریس کو اس مسئلہ پر بھی شدید احتجاج کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس نے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مسئلہ کو رجوع کیا لیکن حیرت انگیز رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے مودی اور شاہ کی تقاریر میں کسی قسم کی خرابی کو نوٹ نہیں کیا ۔ نفرت پر مبنی تقاریر کو تعزیرات ہند کی دفعہ 153A کے تحت قابل مستوجب سزا سمجھی جاتی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کو مودی اور امیت شاہ کی تقاریر میں کوئی خامی نظر نہیں آئی اور اس نے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ کانگریس نے مودی اور شاہ کے خلاف اپنی 11 شکایات کا چارٹ بھی پیش کیا جس میں کہا گیا کہ انتخابی پروپگنڈہ کی غرض سے مسلح افواج کا بیجا استعمال کیا جارہا ہے ۔ لیکن الیکشن کمیشن اس شکایت کا نوٹ لینے میں ناکام دکھائی دیا ۔ یہ حیرت کی ہی بات ہے کہ ملک کا دستوری ادارہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر بی جے پی کے لیے ایک قانون پر عمل کررہا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیے دوسرا قانون نافذ کرلیا ہے ۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں میں بی جے پی کے دیگر قائدین ملوث ہیں جن میں پرگیہ ٹھاکر ، مینکا گاندھی اور چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ یوگی کے خلاف شکایت بھی کی جاچکی ہے ۔ جس کا کوئی نوٹ نہیں لیا گیا ۔ نفرت پر مبنی تقاریر کو ہی جب الیکشن کمیشن کا رویہ مختلف ہو تو یہ سیاسی ہے ۔ دستوری فرائض کی انجام دہی میں سب سے بڑی بددیانتی کا مظاہرہ ہے اور جب ایک ملک کا وزیراعظم تاریخ سے سبق سیکھنے سے قاصر ہے تو یہ بڑی بدبختی کی بات ہے ۔۔