تبدیلی مذہب کا مسئلہ

   

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا

ملک بھر میں تبدیلی مذہب کا مسئلہ انتہائی حساس نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ہندوستان کے جو حالات ہیں ان میں یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل بھی ہے اور اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی کئی گوشوں کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ انتخابات کا موقع ہو یا پھر کوئی اور موقع ہو سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس مسئلہ کا استحصال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ۔ مذہب کا جہاں تک مسئلہ ہے یہ انتہائی شخصی مسئلہ ہوتا ہے ۔ کوئی بھی شخص اپنی پسند اور مرضی کے اعتبار سے مذہب کو اختیار کرسکتا ہے ۔ مذہب کو تبدیل کرسکتا ہے یا پھر کوئی اور بھی فیصلہ کرسکتا ہے ۔ تاہم ہندوستان میں اس کو انتہائی حساس نوعیت کا مسئلہ بنادیا گیا ہے ۔ خاص طور پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اور فرقہ پرست عناصر کی جانب سے اس کو انتہائی حساس مسئلہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ اس شخصی اور اہمیت کے حامل مسئلہ کو سیاسی رنگ دینا انتہائی افسوسناک اورمذموم ہی کہا جاسکتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنے فائدے کیلئے کسی بھی مسئلہ کے استحصال سے کبھی بھی گریز نہیں کرتیں اور مسئلہ کو توڑ مروڑ کر اپنے فائدہ کیلئے ڈھالنے میں انہیںمہارت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ کسی کو بھی جبرا مذہب تبدیل کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا اور ایسا کرنا جرم بھی ہے ۔ کسی کو لالچ کے ذریعہ یا کسی دباؤ کے ذریعہ مذہب تبدیل کرنے کیلئے مجبور کرنا ہندوستان میں قابل سزا جرم بھی ہے ۔ نہ ملک کے کسی قانون نے کسی کو اجازت دی ہے کہ کسی کا مذہب جبری طور پر تبدیل کروایا جائے یا پھر کسی بھی مذہب میں ایسی کوئی گنجائش ہے ۔ اگر کسی مذہب کے ماننے والے کسی دوسرے فرد کا مذہب جبرا تبدیل کرواتے ہیں یا لالچ دے کر تبدیل کرواتے ہیں یا دباؤ بنا کر ایسا کرواتے ہیں تو وہ خود اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ کسی بھی مذہب میں کسی کو جبرا مذہب تبدیل کرنے کروانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ایسا کرنے والے نہ اپنے مذہب کی صحیح طریقہ سے پیروی کر رہے ہیں اور نہ ہی ملک کے قانون کا پاس و لحاظ رکھ رہے ہیں۔ ایسا کرنے والوںکو بھی قانون کے دائرہ میں لانے کی ضرورت ہے ۔
جنوبی ریاست ٹاملناڈو میں تبدیلی مذہب کے مسئلہ پر سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی ہے ۔ عدالت نے بھی اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اس مسئلہ کا سیاسی استحصال نہیںکیا جانا چاہئے اور نہ ہی اس کو سیاسی رنگ دیا جانا چاہئے ۔ اگر کسی ریاست میں جبرا یا لالچ کے ذریعہ یا دباؤ کے ذریعہ کسی کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اچھی بات ہے۔ تاہم عدالت میں جو مقدمہ ہے فریقین کو اسی ایک نکتہ تک محدود رہنے کی ضرورت ہے ۔ اس کو سیاسی رنگ نہیںدیا جانا چاہئے ۔ اس طرح کے معاملات میں چاہے درخواست گذار ہوں یا پھر مدعی علیہان ہوں کسی کو بھی اصل مسئلہ سے توجہ ہٹاتے ہوئے اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش نہیںکرنی چاہئے ۔ تبدیلی مذہب ایک حساس اور اہمیت کا حامل مسئلہ ہے ۔ یہ ہر شہری کا اپنا شخصی مسئلہ ہے ۔ اس پر کسی بھی گوشے سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ ہی کوئی لالچ دی جاسکتی ہے ۔ اگر کسی دباؤ یا لالچ کی وجہ سے مذہب تبدیل کیا جائے تو یہ مذہب کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہوگا ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ اس انتہائی شخصی مسئلہ کو بہت زیادہ تشہیر دیتے ہوئے سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے ۔ اگر اس مسئلہ کو لو جہاد کا نام دیا جا رہا ہے تو کہیں اور کوئی نام دیتے ہوئے اس کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ ایسی کوششیں اور حرکتیں ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے اور امن و ہم آہنگی کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہیں اسی لئے سبھی کو اس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔
حکومتوں کو بھی اس معاملے میں محدود رول ادا کرنا ہوگا ۔ کوئی اتھاریٹی ان سارے معاملات کا جائزہ لینے کیلئے کام کرسکتی ہے اور فریقین کو بھی اس طرح کے معاملات کو حساسیت کے ساتھ حل کرنے پر توجہ دینا ہوگا ۔ سیاسی جماعتوں کو بطور خاص اس سے دور رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور حکومتیں اس طرح کے مسائل پر بھی سیاست کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ ان کے سامنے صرف اپنا سیاسی فائدہ ہوتا ہے ۔ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیںہوتی کہ اس کے معاشرہ یا سماج پر کیا اثرات مرتب ہونگے ۔ سیاسی استحصال کرنے والوں کو بھی قانون کے شکنجہ میںلانے کی ضرورت ہے ۔