تبریز انصاری تشویشناک سماجی صورتحال کی علامت

   

رام پنیانی
اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کی حالیہ 17 ویں میٹنگ میں ہندوستان میں مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم اور ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافے کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ یوں تو وزیراعظم مودی نے بیان دیا ہے کہ اقلیتوں کی حفاظت کریں گے، لیکن لنچنگ کے واقعات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
ایک مسلم نوجوان تبریز انصاری کو کھمبے سے باندھ کر بے رحمانہ انداز میں پیٹا گیا اور بولا گیا کہ ’’جئے شری رام‘‘ کہے۔ ایک اور مسلمان حافظ محمد کو ٹرین سے باہر پھینک دیا گیا؛ ایک اور بہ نام فیض ال عثمان ٹیکسی ڈرائیور کو ممبئی کے قریب مارپیٹ کی گئی۔ یہ فہرست طویل ہے اور بڑھتی ہی جارہی ہے۔ مملکت یا حکومت کا ردعمل خود وزیراعظم سے عیاں ہے جب اپنے بیان میں انھوں نے جرم کو ماند کردیا اور کہا ایسے واقعات کو اجاگر کرنے کے سبب جھارکھنڈ (جہاں سے انصاری کا تعلق ہے) کی بدنامی ہورہی ہے۔ مملکت کا غیراطمینان بخش رویہ زیادہ تر معاملوں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس دوران ملک گیر سطح پر کئی اجلاس منعقد ہوئے جن میں مسلم کمیونٹی اور دیگر نے بھی ان واقعات کے خلاف احتجاج کیا۔ میرٹھ میں اس طرح کے ایک واقعہ میں پولیس نے نعرے بازی کرنے والے سینکڑوں نوجوانوں کے خلاف شکایات درج کیں، جو ہجومی تشدد جیسے واقعات کے خلاف پُرامن انداز میں احتجاج کررہے تھے۔
ایسے واقعات بالخصوص تبریز انصاری کیس نے عالمی توجہ حاصل کی ہے۔ مائیکل پامپیو نے امریکی وزیر خارجہ نے مذہبی آزادی کے حق میں لب کشائی کی۔ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کی سلامتی کے اشاریہ میں انڈیا کا مقام گزشتہ چند برسوں کے دوران گھٹتا گیا ہے۔ اقلیتوں کی سلامتی سے متعلق مسائل ہماری توجہ بار بار حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہ واقعات منتشر نوعیت کے ہیں لیکن نہج بہت واضح ہے۔
مسلم افراد معمولی جرائم سے متعلق معاملوں یا کوئی دیگر بہانے سے پکڑلئے جاتے ہیں؛ یکایک ہجوم بن جاتا ہے اور زدوکوبی شروع ہوجاتی ہے اور متاثرین سے بالخصوص ’جئے شری رام‘ کہنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ واقعات گائے۔ بیف کے نام پر ابھی تک وسیع تر ہجومی تشدد کے پس منظر میں رونما ہورہے ہیں۔ تشدد، ہجومی جارحیت کہیں کہیں بالکلیہ دفعتاً پیش آتے ہیں۔ یہ حرکتیں دو بنیادی طریقوں کے سبب ممکن ہوئے ہیں جن پر کوئی بندش نہیں لگائی گئی۔ ان واقعات میں کلیدی عنصر خصوصیت سے مسلمانوں اور جزوی طور پر عیسائیوں کے خلاف بھی غلط فہمیاں پھیلانے اور ان کو ذہن میں بٹھانے کی کوشش ہے۔سرگرمی سے ذہن میں ڈالنے اور بڑھاوا دیئے جانے والی غلط فہمیوں کا تعلق اسلام سے ہے کہ اسے ’بیرونی‘ مذہب بتایا جارہا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اسلام صدیوں سے اس سرزمین کے مذہبی تنوع کا حصہ رہا ہے۔ ویسے مذاہب کی قومی سرحدیں نہیں ہوا کرتیں۔ مسلم بادشاہوں کو جارح اور مندر گرانے والوں کے طور پر پیش کیا گیا، جنھوں نے یہاں بزور طاقت اپنا دین پھیلایا۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام ابتداء میں بنیادی طور پر مالابار ساحل میں عرب تاجرین کے ساتھ ربط و ضبط کے سبب پھیلا اور بعد میں کئی لوگوں نے ذات پات کے جبر و استبداد سے بچنے کیلئے اسلام قبول کرلیا۔ مسلمانوں کو بٹوارہ کیلئے بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، حالانکہ تقسیم ہند کئی عوامل پر مبنی عمل رہا، جس میں مرکزی رول برطانوی حکمرانوں نے ادا کیا، جو جنوبی ایشیا میں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کیلئے کوئی اساس چاہتے تھے۔
ایسی غلط فہمیوں کی طویل اور وسعت پذیر فہرست ہے جو اب ’سماجی عام فہمی‘ کا حصہ بن چکی ہے۔ وقفے وقفے سے مخالف مسلم نقطہ نظر سامنے لایا جاتا ہے، چاہے وہ اذان کا مسئلہ ہو یا میتوں کی تدفین کیلئے درکار زمین (قبرستان)، چاہے مسلمانوں کے بڑے گوشے کی غربت (سچر کمیٹی رپورٹ) ہو یا القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کا فروغ کہ غالب حکمران عالمی طاقتوں کے زیراثر مغربی ایشیا کے تیل کے کنوؤں پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔
خلاصہ یہ کہ عام سماجی ادراک میں مسلمان ’قابل غور خیال‘ بن چکے ہیں۔ زیادہ تر کیسوں میں بڑے ملزمین سماج کے محروم طبقات ہوتے ہیں، جبکہ اشتعال انگیز عناصر اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کے خلاف ایک خیال گڑھا گیا ہے۔ اس عمل کی بعض سوشل گروپوں نے اچھی طرح مدد کی، جہاں ہندو۔ مسلم بادشاہوں کے درمیان لڑائیوں کو مذہبی رنگ دیا گیا، اور نوخیز تاثراتی ذہن مخالف مسلم نفرت سے بھرے جاتے ہیں جبکہ مسلم بادشاہوں کے بعض منتخب اقدامات کو مسلم کمیونٹی پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں اضافی عنصر پاکستان کو گھسیٹنا ہے۔
مخالف مسلم لفاظی میں آج ہندوستان کے مسلمانوں کی عکاسی کی جارہی ہے۔ حد سے زیادہ قوم پرستی دشمن والا امیج پیدا کرنے پر پھلتی پھولتی ہے۔ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور یہ رجحان آگے چل کر ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا میکانزم بن گیا۔ مجموعی طور پر مسلم برادری کو شناخت سے متعلق جذباتی مسائل کا ٹارگٹ بنایا گیا ہے۔
فرقہ وارانہ تشدد جس نے ہندوستانی سماج کو داغ لگایا ہے، اجتماعی مظاہرہ رہا اور چند سال قبل سوسائٹی کو منتشر کیا۔ آج عمومی عمل کی جگہ پہلے بیف سے متعلق تشدد نے لی، اور اب کسی جرم کا بہانہ سلسلہ وار تشدد کا موجب بن رہا ہے۔ ’جئے شری رام‘ کے نعرہ کو نیا موڑ دیا گیا ہے اور شمال ہند کے بڑے حصوں میں جئے رام کے بول سے استقبال کرنے کے سب سے عام طریقے کو جارحانہ سیاسی داؤ بنادیا گیا ہے۔
ہر ایک واقعہ کو تفصیلی طور پر بیان کیا جاسکتا ہے، لیکن ’نفرت کے جرائم‘ کی اساس بدستور فرقہ وارانہ رنگ دیا ہوا سماجی عمومی فہم ہے۔ تحریک آزادی کے دوران گاندھی جی ، بابائے قوم، نے تمام برادریوں کے ممکنہ تال میل کی طرف توجہ دی، اور وہ کندھے سے کندھا ملا کر برطانوی راج کے خلاف لڑسکے جبکہ ’انڈیا کی بطور قوم تشکیل ہورہی تھی‘۔ اس عمل کو فرقہ وارانہ دھاروں نے پلٹ دیا ہے اور متنوع مذہبی برادریوں کو نفرت سے بھر دیا گیا جو بھائی چارہ کے تصور کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے، جو کہ ہمارے دستور کے دیباچہ میں ہے۔
ایک طرف اقلیتوں کو سلامتی کا احساس دلانے کی ضرورت ہے؛ دوسری طرف نفرت کی بنیاد، اُن کے خلاف سماجی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ نفرت کی اساس، ان غلط فہمیوں کا صفایا کرنا ہوگا۔ ہندوستانی سماج کو درپیش مسائل کا تعلق مادی وجود، صحت اور تعلیم سے متعلق مسائل سے ہے۔ تفرقہ پسند سیاست، مذہب کے نام پر ریاکاری کو ختم کرنا پڑے گا۔ ہمارے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے کہ قوم کو متحد کیا جائے جو امن اور ترقی کیلئے پیشگی شرط ہے۔
ram.puniyani@gmail.com