تبلیغی اجتماع میں شریک ہزاروں افراد کی ملک گیر تلاش

,

   

کورونا وائرس سے ملک بھر میں تقریباً 2000 افراد متاثر
نظام الدین مرکز Covid-19 کا ہاٹ اسپاٹ
چینائی میں ایک دن میں 110 نئے کیس
لکھنؤ میں 569 جماعت کے افراد ایسولیٹ
طبی عملہ کو ایک کروڑ روپئے انعام : چیف منسٹر دہلی
نظام الدین مرکز اجتماع کی تحقیقات کیلئے کانگریس کا مطالبہ

نئی دہلی ۔ یکم ؍ اپریل (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان میں کوروناوائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد تقریباً 2000 تک پہنچ گئی ہے، زیادہ تر متاثرین دہلی کے قلب میں واقع نظام الدین مرکز پر منعقدہ تبلیغی اجتماع میں شریک افراد ہیں۔ یہ مرکز
Covid-19
کا ہاٹ اسپاٹ بن گیا ہے۔ 25 ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں کی جانب سے جاری کردہ متاثرین کی تعداد 8500 بتائی گئی ہے جس کے فوری بعد حکام نے اپنے ساتھ وائرس لے کر گھومنے والے تبلیغی اجتماع کے افراد کی تلاش تیز کردی ہے۔ تبلیغی جماعت کی 6 منزلہ مسجد کی عمارت سے مزید 2346 افراد کو خالی کردایا گیا ہے ان میں 531 کو دواخانہ میں شریک کیا گیا ہے ان میں کوروناوائرس کی علامتیں ظاہر ہوئی ہیں۔ ملک بھر میں مرکز میں شریک افراد کی تلاش کرتے ہوئے اب تک 358 کیسوں کی توثیق کی گئی ہے۔ ریاستوں کی پولیس اور نظم و نسق کے سربراہوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کرتے ہوئے مرکزی کابینی سکریٹری راجیو گوبا نے تمام ریاستوں سے کہا کہ وہ دہلی میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والے تمام افراد کا پتہ چلانے کیلئے جنگی بنیادوں پر تلاش کریں۔ شام میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزارت داخلہ نے کہا کہ ملک میں 24 گھنٹوں کے اندر 386 نئے کیس درج کئے گئے ہیں۔ یہ تعداد قومی رجحان کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ اس سے زیادہ متاثرین کی تعداد پائے جانے کا اندیشہ ہے۔ وزارت صحت کے جوائنٹ سکریٹری لاو اگروال نے کہا کہ ملک گیر سطح پر تبلیغی اجتماع کے لوگوں کو تلاش کیا جارہا ہے۔ اس اجتماع میں شریک کم از کم 9 افراد فوت ہوچکے ہیں۔ ان میں تلنگانہ میں 6، کشمیر گجرات اور کرناٹک میں ایک، ایک شخص فوت ہوچکا ہے۔ مرکز کے مقام پر آج دوپہر ایک بجے تک صفائی کا کام انجام دیا گیا اور پورے علاقہ کو سینٹائز کیا گیا۔ عمارت کے ہر کونے میں چھڑکاؤ کیا گیا ہے۔ اس مرکز میں زیادہ تر بڑے بڑے ہالس ہیں اور یہاں پر ایک قطار میں بستر بچھے ہوئے ہیں۔ ہر منزل پر ایسے ہی ہال پائے جاتے ہیں۔ حکام نے نظام الدین علاقہ میں رہنے والے افراد کو حکومت کے ہنگامی منصوبے سے واقف کرایا ہے۔ گھر گھر جاکر پازیٹیو کیس کا پتہ چلایا جارہا ہے۔ دہلی پولیس اور انٹلیجنس بیورو نے اندازہ لگایا ہیکہ 10 مارچ تا 24 مارچ کے درمیان اس مرکز کا 6500 تا 7000 افراد نے دورہ کیا تھا اور اس میں کئی افراد کوروناوائرس سے بھی متاثر تھے جنہوں نے یہ وائرس دوسروں میں منتقل کیا۔ یہاں پر کم از کم 300 بیرونی شہری بھی شامل ہیں۔ ان میں 6 انڈونیشیائی شہری ہیں جو تلنگانہ میں فوت ہوئے۔ تلنگانہ، آندھراپردیش اور ٹاملناڈو کے سب سے زیادہ افراد اس اجتماع میں شریک تھے۔ رپورٹ کے مطابق ان ریاستوں میں 237 کیس سامنے آئے ہیں۔ سب سے زیادہ ٹاملناڈو میں 110 نئے کیس ہیں۔ یہاں پر کوروناوائرس سے متاثرین کی تعداد 190 ہوگئی ہے۔ دیگر دو ریاستوں اترپردیش اور مہاراشٹرا میں بھی تبلیغی اجتماع کے لوگ پھیلے ہوئے ہیں۔ انٹلیجنس بیورو کے عہدیداروں کے مطابق 2000 بیرونی شہری بھی 70 ممالک سے ٹورسٹ ویزا پر یہاں پہنچے تھے۔ یہ لوگ یکم ؍ جنوری سے ملک میں تبلیغ کا کام کررہے تھے۔ انہوں نے ہندوستانی امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ وزارت داخلہ کے جائزہ کے مطابق ان بیرونی شہریوں میں بنگلہ دیش سے 493، انڈونیشیا سے 472، ملیشیا سے 150 اور تھائی لینڈ سے 142 شامل ہیں۔ متعلقہ ممالک کے سفیروں سے رابطہ قائم کیا گیا ہے اور مختلف ممالک کے ان افراد کی صورتحال سے واقف کرایا گیا ہے۔ ملک بھر میں مساجد کی تلاشی لی جارہی ہے اور تبلیغی اجتماع کے لوگوں کا پتہ چلایا جارہا ہے۔ حکام نے بتایا کہ تبلیغی اجتماع 100 سال قدیم تاریخ رکھتا ہے۔ دیوبند کے مفکراسلام مولانا محمد الیاس کھنڈلوال نے اس اجتماع کا آغاز کیا تھا۔ لکھنؤ میں 569 تبلیغی اجتماع کے افراد کو آیسولیٹ کردیا گیا ہے۔ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے کہا کہ کوروناوائرس کے مریضوں کا علاج کرنے کے دوران فوت ہونے والے طبی عملہ کے ارکان خاندان کو فی کس ایک کروڑ روپئے کی مالی اعانت کی جائے گی۔ انہوں نے ڈاکٹروں سے خطاب کرتے ہوئے دہلی حکومت ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملہ کے دیگر ارکان کی خدمات کا اعتراف کرتی ہے۔ اس نازک وقت میں یہ لوگ سپاہیوں کی طرح کام کررہے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے دہلی کے نظام الدین مغربی علاقہ میں تبلیغی جماعت اجتماع کے انعقاد میں کئی گئی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس اجتماع کو مذہبی رنگ دینے کے بجائے اس جماعت کی جانب سے اگر کوئی خلاف ورزی کی گئی تو اس کا پتہ چلایا جانا چاہئے۔ کوروناوائرس کا کوئی مذہب، ذات یا رنگ و نسل نہیں ہوتا۔ یہ انسانیت کیلئے خطرہ ہے۔