تحفظات کی سیاست

   

اُن کی نظروں میں ہر شخص ہے معتبر
صرف نظروں میں ناکارہ ہم ہوگئے
تحفظات کی سیاست
مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت تحفظات کے مسئلہ پر پسِ پردہ دستک دے کر اپنے گرتے ووٹ بینک کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کو تحفظات دینے کے مطالبہ کو مسترد کردینے والی یہ حکومت اب اعلیٰ ذات کے کمزور افراد کو 10 فیصد تحفظات دینا چاہتی ہے۔ اس مسئلہ پر یا ایشو پر غور کرنے والے بہت ہیںمگر ایس سی اور ایس ٹی تحفظات کے ساتھ مسلمانوں کو یہ غور کرنا ضروری ہے کہ یہ حکومت ان کے حق میں معاندانہ رویہ رکھتی ہے اور عام زمرہ میں معاشی طور پر کمزورطبقہ کیلئے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 10 فیصد تحفظات کو نافذ کرنا چاہتی ہے ۔ مرکزی کابینہ نے ان تحفظات کو منظوری دے دی ہے ، یہ کابینہ کیا ہے اپنی من مانی کرنے والا ذاتی ادارہ ہے جو بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنے والی بی جے پی کو عین لوک سبھا انتخابات سے تین ماہ قبل ان تحفظات کاخیال آیا ہے۔ کانگریس نے اس فیصلہ کو شعبدہ بازی قرار دیا۔ گذشتہ چار ساڑھے چار سال کے دوران بی جے پی کو یہ عام زمرہ دکھائی نہیں دیا۔ ووٹ فیصد گھٹنے کا خوف اتنا شدید ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ یہ حکومت ذہنی انتشار میں ناقابل عمل فیصلے کرتی جارہی ہے۔ بوکھلاہٹ میں کیا گیا فیصلہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اگر حکومت اس فیصلہ کو حتمی شکل دینا چاہتی ہے تو یہ بات فی الحال راجیہ سبھا میں ممکن نہیں ہے۔ عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلامیہ کی اجرائی کے بعد حکومت کسی بھی ایجنڈہ کو روبہ عمل نہیں لاسکتی۔ ضابطہ اخلاق کے اطلاق کے بعد حکومت کو انتخابی شیڈول کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔ تحفظات کا اعلان بی جے پی کو سیاسی فائدہ بھی نہیں پہنچا سکتا، پھر بھی بی جے پی کا ہوشیار اور چالاک ٹولہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ جملہ بازی کے ذریعہ عوام کو بے وقوف بناکر ووٹ بٹورے جائیں۔ 2014 میں مودی کے پاس ’ اچھے دن ‘ کا نعرہ تھا اس جھانسے والے جملہ سے بی جے پی کو اقتدار پر پہونچنے کے ووٹ حاصل ہوئے ، اس مرتبہ اچھے دن کا نعرہ کام نہیں کرے گا۔ اس لئے بی جے پی نے عام زمرہ میں اعلیٰ ذات کے لوگوں کو تحفظات دینے کا اعلان کرکے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی ناراضگی کو دور کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ بی جے پی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت میں ایس سی اور ایس ٹی طبقات کے کارکنوں اور دانشوروں نے احتجاج کرتے ہوئے اس اقدام کو دستور کے ساتھ کھلواڑ قرار دیا۔ تحفظات کی بنیاد تاریخی عدم مساوات اور عدم نمائندگی ہے ،غربت نہیں۔ جن طبقات کو تحفظات دیئے جارہے ہیں وہ محض سماج میں ان کے پچھڑے پن کو دور کرنا ہے۔ ہندوؤں کا اعلیٰ ذات کا طبقہ اس زمرہ میں نہیں آتا۔ ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ کہلانے والا طبقہ تحفظات کا مستحق نہیں ہوسکتا، اور نہ یہ دستور کی رو کے مطابق ہے ۔ حکومت اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرتے ہوئے دستور کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ ووٹ لینے کی نیت سے اعلیٰ ذات کے افراد کو خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو تحفظات سے محروم رکھنے والی یہ حکومت ہندوؤں کے اعلیٰ ذات طبقہ کو پسماندہ قرار دے کر انھیں تحفظات کے زمرہ میں لانا چاہتی ہے۔ گویا حکومت نے سیاسی مفاد کیلئے ایک اونچی ذات کو نچلی ذاتی کی صف میں کھڑا کرکے انھیں سماجی گراوٹ کے احساس میں مبتلاء کرنا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ حکومت اپنے فائدہ کے لئے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے مقدر کو بگاڑنے پر تُلی ہوئی ہے؟ ان کا مقدر سنوارنے کی حماقت میں اُن پر غریب ہونے کا سرکاری لیبل لگانا چاہتی ہے۔ یہ سماجی ناانصافی کی ایک اور بدترین حرکت کہلائے گی۔ حکومت کے ایسے فیصلے سراسر ملک کے کمزور طبقات کیلئے نقصاندہ اور انہیں غریب سے غریب تر کرنے کی سازش کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس ملک میں کمزور طبقات اور ان سے وابستہ افراد کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو معاشی پسماندگی کیا ہوتی ہے اور اس کے سماجی نتائج کیابرآمد ہوتے ہیں اسکا احساس اس حکومت کو نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا معاملہ رکھنے والی یہ حکومت اپنے ووٹ بینک کی خاطر ملک کو مزید انتشار پسندی کی آگ میں جھونکنا چاہتی ہے۔ اس ملک میں پہلے ہی سے علاقائی سطح پر مختلف ذاتیں، طبقات اپنے حق میں تحفظات کا مطالبہ کرکے تشدد برپا کررہی ہیں‘ صرف مسلم طبقہ ہی ایسا ہے جس نے تحفظات کے حصول کیلئے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی حکومت کو تحفظات دینے کیلئے اتنا مجبور کیا کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں جلدی کا مظاہرہ کرے۔ جو طبقات تحفظات کے مستحق ہیں اور اس کیلئے برسوں سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں انھیں نظرانداز کرکے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں کمزور غریب افراد کو چن چن کر تحفظات فراہم کرنے کابینہ کا فیصلہ سراسر دستور کے دامن کو چاک کرنے کی کوشش ہے۔