تلنگانہ اسٹیٹ قاتلوں کا مرکزجرم کتنا کامیاب اور قانون بے بس !!

   

محمد اسد علی
موجودہ دور انتہائی افسوسناک حالات سے گزر رہا ہے ۔ ہر طرف بے ایمانی کا دور دورہ ہے ۔ حلال اور حرام کی پہچان ختم ہورہی ہے اور حق اور ناحق کا فرق ختم ہوگیا ہے ۔ تلنگانہ میں آج کل نام نہاد نمبروں فرینڈلی پولیس کا بہت چرچہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس کا رویہ اس کے برعکس ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تلنگانہ بالخصوص شہر حیدرآباد میں جرائم کے واقعات جیسے Brutal Murder ، Attempt to Murder ، عصمت ریزی ، جبری وصولی ، گھریلو تشدد (DVC) ، 498-A ، جسم فروشی ، گانجہ ، شراب کی خبریں آئے دن اخبار کی زینت بن رہی ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ شہر میں قتل کے واقعات عام طور پر آپسی دشمنی ، جائیداد ، یا پیسوں کیلئے قتل ہورہے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کو پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروانا ہو تو بعض پولیس والوں کا رویہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے اور ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے جبکہ پولیس عہدیدار شکایت کنندہ سے کہتے ہیں کہ تمہیں کوئی injury نہیں ہوئی، اگر ہوتی تو پولیس اسٹیشن کو آتے لیکن پولیس کے اس رویہ اور لاپرواہی کی وجہ سے مجرمین کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ کھلے عام غنڈہ گردی کرتے ہوئے ہر قسم کی غیر قانونی حرکات کرتے ہوئے آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں۔ محکمہ پولیس میں تعصب بھی ایک تشویشناک بات ہے ۔ حالانکہ ہندوستانی دستور کے مطابق ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں لیکن بعض پولیس عہدیدار مذہبی ، سماجی ، یا سیاسی رخ کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقی شکایت کنندہ کا حوصلہ پست کردیتے ہیں ۔ اگر فریق مخالف دولت مند ہو یا کسی سیاسی پارٹی سے اثر رسوخ رکھتا ہو تو اس صورت میں شکایت کنندہ کے ساتھ سخت ناانصافی ہوتی ہے اور پیسوں کے لالچ میں بعض پولیس عہدیدار اپنے دستوری حلف کو فراموش کردیتے ہیں جبکہ وہ دیانتداری اور غیر جانبداری سے فرض منصبی کی ادائیگی کی قسم کھاتے ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ غنڈوں کو بھی مبینہ طور پر پولیس کی سرپرستی حاصل رہتی ہے جس سے جرائم پیشہ افراد کو قانون شکنی کا موقع ملتا ہے اور وہ بغیر کسی سزا کے آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں اور غریب تاجروں اور دیگر کو ڈرا دھماکران سے پیسے وصول کرتے ہیں اور ان کے انکار کرنے پر جبری وصولی کی جاتی ہے اور پیسے نہ دینے پر ان کا قتل کردیا جاتا ہے جن کی بزدلانہ حرکت سے عام شہری پریشان حال ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ تلنگانہ میں پولیس کو عوام دوست (Friendly Police) کیا جاتا ہے ، افسوس کی بات یہ ہے کہ روزنامہ سیاست میں 23 اگست 2023 ء صفحہ نمبر 2 میں شائع رپورٹ کے مطابق حیدرآباد کے ایک پولیس اسٹیشن کے سابق اسٹیشن ہاؤز آفیسر (SHO) نے ایک ملزم کی بیوی کو بندوق کی نوک پر ڈرا دھماکر عصمت ریزی کی ہے اور معطل شدہ انسپکٹر نے اپنی حراست کے د وران پولیس تفتیش میں اعتراف کیا اکہ اُس متاثرہ خاتون سے اس کے ناجائز تعلقات تھے، اس کے علاوہ ایک اور نیوز روزنامہ سیاست میں 29 نومبر صفحہ نمبر10 میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک پولیس کانسٹبل چوروں کے ساتھ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور تحقیقات میں جیب کتروں کی ٹولیوں سے تعلقات کا انکشاف ہوا ہے جبکہ حال ہی میں شائع رپورٹ کے مطابق پولیس نے قدیر خان کو جو 27 جنوری کو حراست میں تھا اور گرفتاری کی مدت کے دوران ان کے ساتھ تھرڈ ڈگری کے ذریعہ بری طرح زد و کوب کیا تھا جس کی وجہ سے قدیر خان کی ہڈیاں ٹوٹ گئی اور گردے ناکارہ ہوگئے تھے اور علاج کے دوران ان کی موت ہوگئی ۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ آلیر انکاؤنٹر کے شہیدوں کے ساتھ بھی آج تک انصاف نہیں ہوا کہ 6 ہفتے ہی قبل پنجہ گٹہ کی ایک ہوٹل میں ایک نوجوان کے قتل کے معاملہ میں پولیس نے نوجوان کو ہاسپٹل منتقل کرنے کے بجائے پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا اور اس کے ساتھ سب انسپکٹر (SI) نے شدید رسواء کرتے ہوئے گالی گلوج کی اور مقامی عینی شاہدین کے مطابق وہ پولیس اسٹیشن میں ہی فوت ہوگیا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ تلنگانہ بالخصوص حیدرآباد میں ایسے متعدد واقعات پیش آرہے ہیں جس سے نام نہاد نمبر ون پولیس کا رویہ بے نقاب ہوتا ہے اور بعض مجرمانہ ذہن رکھنے والے غیر ذمہ دار نام نہاد پولیس عہدیداروں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ وردی میں ہم کسی کا بھی انکاؤنٹر اور حراست میں تھرڈ ڈگری سے عام شہری کی موت اور بندوق کی نوک پر ڈرا دھمکا کرعصمت ریزی ، پولیس اسٹیشن میں غیر قانونی معاملات اور بڑے بڑے ہوٹلوں ، پبس ، جوس سنٹرس ، پان شاپس وغیرہ سے معمول وصول کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ محکمہ پولیس کے بارے میں عوام کی رائے اچھی نہیں ہے ۔ عام شہری کا کہنا ہے کہ اوپر سے نیچے تک پیسے کمانے کی حرص اور جانبداری سے کام لیا جاتا ہے ۔ پولیس کے فرائض میں تعصب اور پیسوں کی دخل اندازی سماج کیلئے ایک کینسر بن گئی ہیں۔ آج بھی محکمہ پولیس میں بہت سے پولیس ملازمین اور اعلیٰ عہدیدار انتہائی دیانتدار ہے اور وہ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کسی قسم کی رشوت یا لالچ سے متاثر نہیںہوتے ہیں اور ایمانداری سے کام انجام دیتے ہیں۔ ایسے عہدیداروں کیلئے محکمہ پولیس اور حکومت ان کی ایمانداری کی وجہ سے انہیں میڈل اور ترقی سے نوازنا چاہئے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ شکایت کنندوں اور بعض وکلاء کے ساتھ (SHO) کا رویہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے اور SHO کہتا ہے کہ تم چیف منسٹر سے میری شکایت کرو یا ہوم منسٹر سے لیکن میں ڈرنے والا نہیں ہوں۔ ایک ذمہ دار اسٹیشن ہاؤز آفیسر پولیس اسٹیشن میں ایک خاتون کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہوئے اس کے ساتھ نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا ہے جو انتہائی افسوس کی بات ہے ۔ محکمہ پولیس اور تلنگانہ حکومت کو کہ مجرمانہ ذہن رکنھے والے بعض پولیس ملازمین کو اخلاقیات کا درس دے چاہئے تاکہ وہ حساس شہریوں اور پولیس اسٹیشن آنے والے شکایت کنندہ کے ساتھ شائستہ رویہ اختیار کریں اور عوام کی شکایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ظالم اور مظلوم کے درمیان امتیاز کرسکے اور جس کے ساتھ قانون کے لحاظ سے جیسا سلوک کیا جانا چاہئے ویسا سلوک کرے کیونکہ اہم بات یہ ہے تلنگانہ کے تمام پولیس اسٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کرنا چاہئے جس سے پولیس عہدیدار اور مجرمین کے علاوہ پولیس اسٹیشن آنے والوں کی حرکات و سکنات کو ریکارڈ کیا جاسکے ۔ اگر اس میں کسی قسم کی غیر قانونی حرکات دکھائی دے تو ان کے خلاف قانونی اقدامات کرے تاکہ محکمہ پولیس کی نیک اور اس کا انصاف عوام میں مقبولیت حاصل کرسکتا ہے۔ ان حالات میں پولیس عہدیداروں کا فرض ہے کہ قتل اور مختلف جرائم کی روک تھام اگر دیانتداری کے ساتھ ایسا ہو تو معاشرہ میں جرائم میں حتی الامکان کمی ہوسکتی ہے اور برائیوں کا صدباب ہوسکتا ہے جس سے محکمہ پولیس اور شہری اطمینان کی سانس لے سکتے ہیں ورنہ خود حکومت کے وقار کو نقصان پہنچے گا اور شہریوں کی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ مزید تفصیلات کیلئے اس نمبر 9959672740 ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔