تلنگانہ عوام ‘ آج فیصلے کا دن

   

تلنگانہ میں آج پولنگ ہے ۔ ریاست کے کروڑوں رائے دہندے آج اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے آئندہ پانچ سال کیلئے ریاست میں نئی حکومت کا انتخاب عمل میں لائیں گے ۔ پانچ ریاستوں میںجہاںانتخابات ہونے تھے تلنگانہ سب سے آخری ریاست ہے جہاں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ نتائج کا 3 ڈسمبر کو اعلان ہوگا ۔ اسمبلی انتخابات کیلئے ریاست میں راست بی آر ایس اور کانگریس میں ٹکراؤ ہے ۔ بی جے پی انتخابی منظر سے عملا غائب اور لاپتہ دکھائی دیتی ہے ۔ بی جے پی کے کیڈر میں کسی طرح کا جوش و خروش دکھائی نہیں دیا اور نہ ہی قائدین میں اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ دکھائی دیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں شدت سے کام کرنے کی بجائے آئندہ پارلیمانی انتخابات کی تیاری کی ہے ۔ خاص طور پر کرناٹک میں پارٹی کی شکست نے اس کے قائدین اور کیڈر کے حوصلے پست کردئے تھے ۔ اب ریاست میں اصل مقابلہ بی آر ایس اور کانگریس میں رہ گیا ہے ۔ شہر حیدرآباد میں مجلس اتحاد المسلمین کو بھی کچھ حلقوں میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے ۔ کانگریس اور بی آرا یس کی جانب سے انتخابی مہم میں انتہائی جارحانہ تیور اختیار کئے گئے تھے ۔ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ جس طرح سے کانگریس پارٹی نے اپنی چھ ضمانتوں کو عوام تک پہونچانے پر توجہ مرکوز کی اس سے پارٹی کو یہ امید ہے کہ اس بار اسے عوامی تائید حاصل ہوگی اور وہ تلنگانہ میں پہلی بار اقتدار حاصل کرے گی ۔ بی آر ایس نے بھی اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے اور اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرنے کی جدوجہد میں پوری طاقت جھونک دی تھی ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے عوام کے موڈ کو سمجھتے ہوئے خود انتخابی مہم کی کمان سنبھالی اور یومیہ دو تا تین جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے ساری ریاست کا طوفانی دورہ کیا ۔ بی آر ایس قائدین کے ٹی راما راؤ اور ہریش راؤ کے علاوہ دوسروں نے بھی مہم میں ساری طاقت جھونک دی تھی ۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں نے ایک ایک ووٹر کو راغب کرنے کی کوشش کی ہے اور عوام تک اپنے منصوبوں اور پیامات کو پہونچایا ہے ۔
کانگریس کی حکمت عملی مثبت انداز کی رہی اور اس نے انتخابات میں کامیابی کے بعد عوام کو پہونچائی جانے والی سہولیات اور اسکیمات پر زیادہ انحصار کیا ۔ اس کے مرکزی قائدین پارٹی صدر ملکارجن کھرگے کے علاوہ راہول گاندھی ‘ پرینکا گاندھی ‘ مختلف ریاستوں کے چیف منسٹرس ‘ سی ایل پی قائدین ‘ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی نے بھی ریاست میں مہم چلائی اور ان تمام نے کانگریس کی ضمانتوں کا تذکرہ ہی زیادہ کیا ۔ عوام سے اس کے علاوہ بھی کئی وعدے کئے اور انہیںتیقن دیا کہ کانگریس پارٹی اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی تمام ضمانتوں کی تکمیل کرے گی ۔ اسی طرح بی آر ایس نے بھی اپنے دس سالہ اقتدار میں عوام کیلئے شروع کی گئی مختلف فلاحی اسکیمات کے تذکرہ کو زیادہ اہمیت کے ساتھ پیش کیا ۔ آئندہ پانچ سال کیلئے بھی کئی اسکیمات او ر پروگرامس کا اعلان کیا گیا ۔ سماج کے جن طبقات کو پہلی دو معیادوں میں زیادہ کچھ سہولیات فراہم نہیں کی جاسکیں انہیں آئندہ پانچ سال میں توجہ کے ساتھ کام کرنے کا تیقن بھی دیا ۔ کانگریس کی ضمانتوں کو ناقابل عمل قرار دیا اور یہ بھی دعوی کیا کہ کرناٹک میں ان ضمانتوں پر عمل نہیں کیا گیا ۔ کانگریس نے کرناٹک کے چیف منسٹر ‘ ڈپٹی چیف منسٹر اور دیگر قائدین کو تلنگانہ میں مدعو کرتے ہوئے وہاں تمام ضمانتوں پر عمل آوری کے ثبوت پیش کئے ۔ اشتہارات کے ذریعہ بھی بی آرا یس کے پروپگنڈہ کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ غرض یہ کہ دونوں ہی جماعتوں نے عوام کی تائید حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔
آج جبکہ رائے دہی ہے ۔ عوام کو اپنے حق رائے دہی کا مکمل استعمال کرنا چاہئے ۔ ووٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنا ووٹ ڈالنا چاہئے ۔ رائے دہی کے تناسب اور فیصد میں اضافہ کیا جانا چاہئے ۔ اسی طرح ریاست اور ریاست کے عوام کے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ووٹ ایک انتہائی اہم اورنازک ذمہ داری ہے ۔ اس کو پورے ہوش و حواس کے ساتھ نبھانا چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں کے سابقہ ریکارڈز اور موجودہ وعدوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آزمائے ہوئے حکمرانوں کو آزمائیں گے یا پھر عوام کیلئے راحتوں کا وعدہ کرنے والوں کو موقع دینگے ۔ کوئی بھی فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے ۔