تلنگانہ عوام کے ووٹوں کی ناشکری … !

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ

آندھرا پردیش اور تلنگانہ ریاستوں کی حکمراں پارٹیاں تلگو دیشم اور ٹی آر ایس نے مرکز کی مودی حکومت کی 10 فیصد کوٹہ پالیسی کی طرح اپنی ریاستوں میں کوٹہ سسٹم نافذ کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے اعلیٰ ذات کا طاقتور طبقہ کاپو کے غریب افراد کے لیے 5 فیصد کوٹہ دینے کا اعلان کیا۔ یہ کوٹہ مودی حکومت کے 10 فیصد کوٹہ کی طرح ہے لیکن تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت اپنی کوٹہ پالیسی میں محصور دکھائی دیتی ہے ۔ مرکز کے 10 فیصد کوٹہ کو نافذ کرنے کے لیے مرکز کے دباؤ میں آکر ابتداء میں اعلان کیا تھا کہ وہ بھی مرکز کے 10 فیصد کوٹہ کو ریاست تلنگانہ میں فی الفور نافذ کرے گی ۔ میں نے اس کالم میں گذشتہ ہفتہ ٹی آر ایس کی موافق بی جے پی پالیسی کے بارے میں سوال اٹھایا تھا ۔ اب حکومت کے گوشوں سے یہ وضاحت کی جارہی ہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ مرکز کی بی جے پی حکومت کے اشاروں پر نہیں ناچ سکتی ۔ ریاستی حکومت نے اگر ہمت دکھاتے ہوئے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں معاشی طور پر کمزور افراد (EWS) کے لیے 10 فیصد تحفظات پر عمل آوری کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آیا ٹی آر ایس حکومت نے مودی حکومت کی پالیسی کا بائیکاٹ کرنے کی ہمت دکھائی ہے ۔ اس کوٹہ پالیسی نے عام انتخابات سے قبل بی جے پی کی گرتی ساکھ کو سہارا دیا ہے ۔ لیکن ریاستی حکومتوں کو بھی مرکز کی 10 فیصد کوٹہ پالیسی پر عمل کرنا پڑے تو پھر وہ مودی حکومت کی پٹھو ہوجانے کا لقب پالے گی ۔ اس لیے فی الحال ٹی آر ایس اور تلگو دیشم حکومتوں نے اس مسئلہ کو پس پشت ڈالدیا ۔ تلنگانہ حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے واضح کردیا کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں غریب افراد کو کوٹہ دینے کا قانون مرکزی حکومت کا ہے اس کا صرف مرکزی حکومت کے اداروں پر اطلاق ہوگا ۔ مرکزی سرکاری ملازمتوں اور مرکز کے تعلیمی اداروں میں ہی کوٹہ کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے ریاستی کوٹہ کی ملازمتوں کے لیے کوئی ترجیحی موقف اختیار نہیں کیا ہے اور نہ ہی ریاستی تعلیمی اداروں میں اعلیٰ ذات کے غریب ہندوؤں کو داخلے دئیے جائیں گے ۔ مرکز کی کوٹہ پالیسی کو اختیار کرنے کے بجائے ٹی آر ایس حکومت نے یہ طئے کیا ہے کہ تلنگانہ کی جانب سے منظوری دو بلوں کو قبول کرنے کے لیے مرکز پر دباؤ ڈالا جائے ۔ ایک بل تو مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا ہے ۔ دوسرا بل ایس ٹی طبقہ کو 10 فیصد کوٹہ دینے کے وعدہ سے متعلق ہے ۔ ان دونوں بلوں کو صدر جمہوریہ کی توثیق حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ کوٹہ کے مسئلہ پر مرکز کی تائید کرنے والی ٹی آر ایس کو ہی اپنی ریاست میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے میں ناکامی ہوئی ہے ۔ ٹی آر ایس نے دستوری ترمیمی بل 2019 کی پارلیمنٹ میں حمایت کی تھی ۔ اس سے پہلے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے مرکز سے کئی مرتبہ نمائندگی کی تھی کہ تلنگانہ اسمبلی میں منظورہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات بل کو مرکز سے منظور کیا جائے ۔لیکن مودی حکومت نے اس بل کو سرد خانے کی نذر کردیا ۔ اس ناکامی کے باوجود ٹی آر ایس نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرلیے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تلنگانہ کے مسلمانوں نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی دیانتداری پر بھروسہ کیا ہے ۔ اس لیے حالیہ انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے ٹی آر ایس کے حق میں بھی ووٹ دیا ۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بھی مسلمانوں سے اسی طرح کی تائید کی امید کرتے ہوئے کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی حکومت کی دوسری میعاد میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا عہد کیا ہے ۔ لیکن اس کے لیے انہیں مرکز پر دباؤ برقرار رکھنے کے ساتھ سنجیدہ کوشش کرنی پڑے گی ۔ مرکز نے ریاستوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ تعلیمی اداروں میں 10 فیصد کوٹہ نافذ کریں لیکن ریاستوں کے کئی تعلیمی اداروں نے اس پر عمل کرنے سے معذوری کا اظہار کیا ہے ۔ مرکز نے 31 مارچ کی آخری مہلت دی ہے اور تعلیمی اداروں کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے کالجوں ، یونیورسٹیوں میں اعلیٰ ذات کے غریب ہندو طلباء کو 10 فیصد کوٹہ کے تحت داخلے دیں ۔ مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل نے حال ہی میں تمام مرکزی تعلیمی اداروں کو ہدایت جاری کردی ہیں ۔ اس کوٹہ پالیسی سے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو فائدہ ہوگا ۔ مگر پسماندہ طبقات پہلے بھی محروم تھے ۔ آج بھی محروم کردئیے گئے ہیں ۔ انہیں حاصل ہونے والی نشستیں اعلیٰ ذات کے ہندو چھین لیں گے ۔ تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات کے بعد بھی باقاعدہ کابینہ تشکیل نہیں پائی ہے تو عوام کی خدمت کا سلسلہ بھی ٹھپ ہوچکا ہے ۔ جب منتخب ارکان اسمبلی کو کوئی ذمہ داری نہ دی جائے تو وہ کیا کریں گے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی اقل ترین کابینہ بھی تشکیل نہیں دی ہے تو پھر ریاستی نظم و نسق کس طرح کام کرے گا ۔ دستور کے آرٹیکل 164(IA) کے تحت ریاستی اسمبلیوں کو چیف منسٹر کے بشمول کم از کم 15 فیصد وزراء کی تعداد ہونی چاہئے ۔ لیکن تلنگانہ میں اس وقت صرف چیف منسٹر اور وزیر داخلہ پر مشتمل کابینہ کام کررہی ہے ۔ دستور کے آرٹیکل 163(1) میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر ریاستی کابینہ میں وزراء کی تعداد کم ہوتی ہے تو گورنر کو اپنا رول ادا کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن یہاں تو گورنر کا یہ حال ہے کہ وہ خود ٹی آر ایس کے ترجمان بنے ہوئے ہیں ۔ کانگریس نے اس بات کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ریاست تلنگانہ کے 33 محکموں اور 289 تنظیموں کا کام صرف ایک آدمی انجام نہیں دے سکتا لیکن چیف منسٹر نے یہ ذمہ داری اکیلے ہی ادا کرنے کی کوشش کی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ عوام کی خدمت تنہا طور پر کرسکیں گے ۔ کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کانگریس اور تلگو دیشم کے منتخب ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ٹی آر ایس میں شامل ہونا چاہتی ہے تاکہ کابینہ میں جگہ مل سکے ۔ نصف درجن کانگریس ارکان اسمبلی اور تلگو دیشم کے دو ارکان کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ یہ لوگ ٹی آر ایس میں شامل ہونے بے تاب ہیں مگر کے سی آر نے انہیں اب تک ہری جھنڈی نہیں دکھائی ہے ۔ کے سی آر اپنی کابینہ میں توسیع کا ارادہ بھی ظاہر نہیں کررہے ہیں ۔ ایسے میں ٹی آر ایس اور اپوزیشن پارٹیوں میں الجھن پائی جاتی ہے ۔ ٹی آر ایس کی مقبولیت نے کے سی آر کو آمریت پسند بنا دیا ہے ۔ ظاہر بات ہے جب کسی پارٹی یا فرد کو عوام کی بھاری تائید کے ساتھ فنڈس کی شکل میں بے حساب دولت مل جائے تو اس کے دیدے آسمان کی جانب ہوجاتے ہیں ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ٹی آر ایس کو پارٹی کارکنوں اور دیگر ممبر شپ کی شکل میں ملنے والی رقم کی تعداد گذشتہ کے مقابل دوگنی بلکہ سہ گنا ہوگئی ہے ۔ پارٹی کیڈرس اور ممبر شپ کے ذریعہ ٹی آر ایس کو سال 2018 میں 22,90,98,380 کروڑ ( 22 کروڑ 90 لاکھ 98 ہزار 380 روپئے ) حاصل ہوئے اسی طرح رضاکارانہ طور پر امداد دینے والوں نے دل کھول کر ٹی آر ایس کو رقمی امداد دی ہے جو 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہے ۔ یہ رقم پارٹی کی جانب سے ظاہر کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہے جب کہ اندرونی طور پر ہونے والی آمدنی توقع سے زیادہ ہے ۔ جب اتنی دولت مند پارٹی کو دوبارہ اقتدار مل جاتا ہے تو اس کی کارکردگی میں رعونت اور ڈکٹیٹر شپ کا مزاج پیدا ہونا یقینی ہے ۔ جب کسی لیڈر کو آمرانہ قسم کا مرض لاحق ہوجائے تو وہ اپنی بقا کی ہی فکر کرتا ہے اور اس بقاء کو یقینی بنانے کے لیے یگنہ پوجا پاٹ کا سہارا لیتا ہے ۔ یعنی کہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے کے باوجود کے سی آر میں اندر ہی اندر یہ خوف ستا رہا ہے کہ انہیں ریاستی طاقت کے حصول کے بعد مرکزی طاقت حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ملے گی ۔ یگنہ کے ذریعہ وہ مرکز تک چھلانگ لگانے کی کوشش کررہے ہیں تو ریاستی عوام کے ووٹوں کے اس ناشکرے پن کی سزا کیا ہونی چاہئے یہ عوام ہی طئے کریں گے ۔۔
kbaig92@gmail.com