تلنگانہ میں بی آر ایس کی شکست

   

شکست ساغردل کی صدائیں سن رہا ہوں میں
ذرا پوچھو تو ساقی سے پیمانوں پہ کیا گزری
جنوبی ریاست تلنگانہ میں بی آر ایس حکومت کو عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ بیدخل کردیا ہے ۔ بی آرا یس کی متبادل کے طور پر کانگریس کے حق میں عوام نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور تبدیلی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا ہے ۔ بی آر ایس نے لمحہ آخر تک بھی اپنی جیت کا یقین ظاہر کیا تھا ۔ یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ تمام ایگزٹ پولس کو ناکام بناتے ہوئے پارٹی اقتدار پر واپسی کرے گی اور ریاست میں حکومت کی ہیٹ ٹرک کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ بنائے گی تاہم ایسا ہو نہیں پایا ہے اور بی آر ایس نے اقتدار سے اپنی بیدخلی کا اعتراف بھی کرلیا ہے ۔ ریاستی وزیر کے ٹی راما راؤ نے پارٹی شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کانگریس کو مبارکباد بھی دی ہے اور دو معیادوں کیلئے موقع دینے پر ریاست کے عوام کا شکریہ بھی ادا کیا ہے ۔ کے چندر شیکھر راؤ نے چیف منسٹر کے عہدہ سے اپنا استعفی بھی گورنر کو روانہ کردیا ہے اور وہ آرام کرنے فارم ہاوز روانہ ہوگئے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ہی کے سی آر اعلان کر رہے تھے کہ اگر انہیں شکست ہوجاتی ہے تو وہ فارم ہاوز میں آرام کرنے چلے جائیں گے ۔ اب جبکہ نتائج کا اعلان ہوگیا ہے اور ریاست کے عوام نے کانگریس کے حق میں اپنے فیصلے کا اظہار کردیا ہے تو کے ٹی راما راؤ نے اعلان کیا ہے کہ پارٹی ان نتائج کا جائزہ لے گی ۔ ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائیگا اور شکست کی وجوہات کا جائزہ بھی لیا جائیگا ۔ یقینی طور پر ہر جماعت کو اپنی انتخابی شکست کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بی آر ایس کو بھی جائزہ لینا چاہئے ۔ جہاں تک عوامی رائے کا سوال ہے تو یہ واضح ہوگیا ہے کہ کے چندر شیکھر راؤ کی آمرانہ روش نے ریاست میں عوام کے موڈ پر بہت زیادہ اثر کیا ہے ۔ چیف منسٹر دو مرتبہ کے اقتدار میں کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں تھے ۔ وہ خود اپنی ہی پارٹی کے وزراء اور ارکان اسمبلی کو تک ملاقات کا وقت نہیں دیا کرتے تھے ۔ ارکان اسمبلی کو کئی کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا تھا اور وزراء بھی اسی وقت دربار میں حاضری دے سکتے تھے جب انہیں طلب کیا جائے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں رہ گئی تھی اور ساری ریاست میں اس پر تنقیدیں ہوا کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ کے چندر شیکھر راؤ نے اقتدار کو محض چند افراد تک مرکوز کردیا تھا ۔ خود کے سی آر کے علاوہ کے ٹی راما راؤ ‘ ہریش راؤ اور پھر ریاستی چیف سکریٹری ہوں یا ڈی جی پی ہوں یا پھر دو ایک مشیر ہوں ان تک ہی سرکاری کام کاج محدود ہو کر رہ گیا تھا ۔ کوئی وزیر اپنے طور پر اپنے متعلقہ محکمہ کے تعلق سے آزادانہ فیصلے کا مجاز نہیں رہ گیا تھا ۔ چیف منسٹر کے عہدہ پر تو کے سی آر برجمان تھے لیکن عملا یہ ذمہ داری بھی کے ٹی آر نبھا رہے تھے ۔ انہیں ریاستی نظم و نسق چلانے کی ایک طرح سے ٹریننگ دی جا رہی تھی کیونکہ کے سی آر اپنے فرزند کو چیف منسٹر کے عہدہ پر دیکھنا چاہتے تھے ۔ ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی اور انہوں نے جس طرح کا ضدی اور ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کیا تھا انتخابات میں یہی رویہ ان کی شکست کی وجہ بن گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ بی آر ایس کے سابقہ وزراء یا قائدین اس کی کھلے عام شکایت نہ کرتے رہے ہیں لیکن انہیں ضرور یہ شکایت رہی تھی کہ خود ان کی پارٹی کے چیف منسٹر ان کی دسترس میں نہیں رہ گئے ہیں۔ عوامی مسائل پر کئی کئی ماہ ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنا اور اچانک ہی کوئی بڑا فیصلہ کرتے ہوئے سب پر مسلط کردینا کے سی آر کی عادت رہی تھی ۔ کے سی آر کو شائد یہ احساس ہوگیا تھا کہ اب کانگریس میں وہ دم خم نہیں رہ گیا ہے کہ وہ بی آر ایس کو شکست دے سکے ۔ وہ اقتدار کے نشہ اور طاقت کے زعم میں مبتلا ہوگئے تھے اور ریاست کے عوام کو ان کا یہ انداز پسند نہیں آیا اور انہوں نے اپنی رائے کا اپنے ووٹ کے ذریعہ اظہار کردیا ۔
کے سی آر نے شکست کے بعد بھی اپنے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں لائی اور انہوں نے چیف منسٹر کے عہدہ سے اپنا استعفی اپنے او ایس ڈی کے ذریعہ گورنر کو روانہ کیا ۔ خود راج بھون نہیں گئے جبکہ روایت یہ رہی تھی کہ خود چیف منسٹر گورنر سے ملاقات کرتے اور انہیں اپنا استعفی پیش کرتے ۔ یہ بھی اب واضح دکھائی دینے لگا ہے کہ کے سی آر اسمبلی اجلاس میں بھی شرکت نہیں کرینگے اور یہاں بھی ذمہ داری کے ٹی آر کے سپرد کردی جائے گی ۔ کے ٹی آر کو اب پارٹی شکست کی وجوہات کا پتہ چلانے کے علاوہ پارٹی کے طرز کارکردگی میں بھی تبدیلی پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاست کی سیاست میںبی آر ایس کا وجود برقرار رہے ۔