تلنگانہ میں تانا شاہی عروج پر ‘ چیف منسٹر کے سی آر ہم جلد واپس آئیں گے

,

   

زبردستی دہلی روانہ کئے جانے پر چندر شیکھر آزاد کا اعلان ‘پولیس نے دس گھنٹوں تک گاڑی میں بھیم آرمی سربراہ کو شہر کی سڑکوں پر گھمایا

٭ ناسازی طبیعت کے باوجود حراست میں لیا گیا ‘ آرام کیلئے ڈاکٹر کا مشورہ نظر انداز
٭ بھیم آرمی سربراہ ‘ محمود پراچہ اور ساتھی کے موبائیل فون پولیس نے حاصل کرلئے
٭ گاندھی ہاسپٹل میں ایکسرے اور ای سی جی کے بعد بمشکل دو گھنٹے آرام کا موقع
٭ آزاد کے ساتھی کو سیاسی جماعت کے سربراہ کے مسلسل فون ‘ دفتر پہونچنے کی تاکید
٭ کمشنر پولیس کے دفتر اور معظم جاہی مارکٹ کے قریب سے نوجوان گرفتار

حیدرآباد 27 جنوری (سیاست نیوز) تلنگانہ میںتاناشاہی عروج پر پہنچ چکی ہے‘ عوام کو احتجاج درج کروانے سے روکا جا رہاہے اور ہمیں تلنگانہ پولیس حراست میں لیتے ہوئے زبردستی دہلی روانہ کر رہی ہے تلنگانہ چیف منسٹر ہم جلد واپس آئیں گے۔ بھیم آرمی سربراہ چندر شیکھر آزاد نے پولیس کی جانب سے حیدرآباد ائیر پورٹ منتقل کئے جانے کے بعد روانہ ہونے سے قبل اپنے ٹوئیٹرکے ذریعہ یہ پیام دیا ۔ چندرشیکھر آزاد کو گذشتہ شب ملے پلی میں واقع ان کے دوست کے مکان سے حراست میں لیا گیا اور زائد از 10گھنٹے چندرشیکھر آزاد اور ان کے ساتھی ڈاکٹر کوش کو شہر کی سڑکوں اور شاہراہوں پر پولیس کی گاڑی میں گھمایا جاتا رہا۔چندر شیکھر آزاد کے کرسٹل گارڈن میںہونے والے پروگرام کو اجازت نہ دیئے جانے کے بعد وہ ناسازیٔ صحت کے سبب ڈاکٹر کی تشخیص کے بعد آرام کر رہے تھے لیکن جب پولیس کو اطلاع موصول ہوئی کہ آزاد ملے پلی کے ایک مکان میں رکے ہیں انسپکٹر پولیس حبیب نگر کی نگرانی میں بھاری جمعیت وہاں پہنچ گئی ۔ پولیس کی آمد سے قبل سپریم کورٹ کے سینئر وکیل مسٹر محمود پراچہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہوٹل گولکنڈہ پہنچے تھے جب انہیں اطلاع دی گئی کہ ان کے نام پر کوئی کمرہ بک نہیں کیا گیا ہے۔ بعد ازاں اس بات کا انکشاف ہوا کہ ہوٹل گولکنڈہ میں بکنگ کو پولیس نے دباؤ ڈال کر ان کمروں کو حاصل کرلیاتھا اور محمود پراچہ کے ساتھیوں کو ہوٹل کے کمروںمیں محروس کردیا گیا۔ محمود پراچہ بھیم آرمی سربراہ کی صحت کے متعلق دریافت کرنے ملے پلی پہنچ گئے لیکن پولیس نے جبرا فلیٹ میں داخل ہوکر آزاد کو حراست میں لے لیا اس دوران محمود پراچہ نے انہیں آزاد کی صحت کے متعلق تفصیلات سے واقف کروایا لیکن انسپکٹر حبیب نگر نے واضح طور پر کہاکہ انہیں پورا حق حاصل ہے کہ وہ آزاد کو حراست میں لیںانہوں نے الزام عائد کیا کہ چندر شیکھر آزادملے پلی سے مہدی پٹنم ریالی نکالنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جبکہ چندرشیکھر آزاد کو ڈاکٹر نے کم از کم دو گھنٹے مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا۔ پولیس نے ہنگامہ آرائی اور نعرہ بازی کے دوران چندر شیکھر آزاد کے ساتھ ان کے ایک ساتھی ڈاکٹر کوش کے علاوہ دیگر کو حراست میں لیا اور وہاں سے روانہ ہوگئی اور دونوں کو علحدہ گاڑیوں میں لیجایا گیا۔ پولیس نے اس دوران نہ صرف بھیم آرمی سربراہ کے فون حاصل کرلئے بلکہ ان کے ساتھی ڈاکٹر کوش اور ان کے وکیل جناب محمود پراچہ کے فون بھی حاصل کرلئے تھے ۔ ابتدا میں چندر شیکھر آزاد کو بلارم پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیالیکن بھیم آرمی کارکنوں کے علاوہ مختلف جامعات کے طلبہ کے جمع ہونے کی اطلاع کے ساتھ ہی انہیں وہاں سے میڑچل منتقل کیا گیا لیکن وہاں بھی عوام کے پہنچنے کے خدشہ کے تحت کسی مقام پر رکے بغیر پولیس کی گاڑی کو مسلسل دوڑایا جاتا رہا ۔ پولیس کی گاڑی میں مسلسل سفر کے دوران آزاد نے ایک مرتبہ پھر سے سانس لینے میں دشواری کی شکایت کی جس پر انسپکٹر نے ڈی سی پی کی ہدایت کے بعد انہیں گاندھی ہاسپٹل لیجانے کا فیصلہ کیا ۔ گاندھی ہاسپٹل میں سینے کے ایکسرے اور ای سی جی کے بعد جب ڈاکٹر نے اس بات کی توثیق کی کہ چندر شیکھر آزاد اب مزید تناؤ لینے کے موقف میں نہیں ہیں تو انہیں پولیس نے ہوٹل گولکنڈہ منتقل کرکے کچھ دیر آرام کی اجازت دی اور ان کے علاوہ ان کے دیگر 4 ساتھیوں کے دہلی ٹکٹ بک کرواتے ہوئے کہا کہ انہیں ائیر پورٹ چھوڑنے تک پولیس حراست میں ہیں ۔ صبح 5بجے ہوٹل گولکنڈہ سے پولیس کی تین گاڑیوںکے قافلہ میں چندر شیکھر آزاد کو ائیر پورٹ لیجایا گیا جہاں ان کے ائیر پورٹ میں داخلہ تک پولیس موجود رہی۔ چندر شیکھر آزاد نے دہلی روانگی کے انتظامات اور جبرا انہیں روانہ کئے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جلد حیدرآباد واپس آئیں گے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کارستانیوں کے پس پردہ کونسی طاقتیں کارفرما ہیں۔ آزاد کو پولیس کی جانب سے حراست میں لینے بعد ان کے ایک ساتھی کو مسلسل ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے فون کال موصول ہورہے تھے جس میں سیاسی جماعت کے سربراہ نے انہیں اپنے دفتر پہنچنے کی تاکید کی اور کہا کہ اگر وہ ان کے دفتر پہنچتے ہیں تو جلد آزاد کی رہائی کا انتظام کردیا جائے گا اور حکومت پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ آزاد کو فوری رہا کیا جائے۔ ان کے ساتھی نے بتایاکہ بھیم آرمی کے اصولوں کے مطابق سربراہ کی جانب سے فیصلہ کے بعد ہی وہ کوئی قدم اٹھاسکتے ہیں ۔ چندر شیکھر آزاد کو گولکنڈہ ہوٹل منتقل کرنے کے بعد ہوٹل کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا تھا کیونکہ آزاد کو حراست میں لئے جانے کی اطلاع کے ساتھ ہی نوجوانوں نے کمشنر پولیس دفتر کے گھیراؤ کا اعلان کیا تھا اس کے علاوہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں طلبہ نے رات دیر گئے احتجاج شروع کردیا تھا ۔ معظم جاہی مارکٹ اور دیگر مقامات پر مظاہرے کئے گئے ۔ رات دیر گئے مظاہروں اور احتجاج پر پولیس کی جانب سے بشیر باغ کے قریب نوجوانوں کو اور معظم جاہی مارکٹ کے قریب احتجاج کرنے والوں کو پولیس نے حراست میں لیا۔ حراست میں لئے گئے نوجوانوں کو محکمہ پولیس نے آزاد کی فلائیٹ دہلی پہنچنے کے بعد رہا کیا۔