تلنگانہ میں سیاسی تبدیلیوں کے آثار

   

ویسے تو سارے ملک میںسیاسی سرگرمیوںمیں تیزی پیدا ہورہی ہے ۔ شمال مشرقی ریاستوںمیںاسمبلی انتخابات ہوئے ہیں جن کے نتائج کل سامنے آسکتے ہیں۔ اسی طرح ملک کی مختلف ریاستوں میںاسمبلی انتخابات جاریہ سال کے اواخر تک ہونے والے ہیں۔ اس کے بعد آئندہ سال پارلیمانی انتخابات ہونیو الے ہیں۔ ان انتخابات کیلئے ہر جماعت نے اپنے اپنے طور پر تیاریوںکا آغاز کردیا ہے ۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ اسے عوامی تائید ملے اور وہ اقتدار حاصل کرے ۔ اس کیلئے مقامی سطح پر بھی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ کچھ ریاستوںکو سیاسی طورپر بہت زیادہ اہمیت حاصل ہورہی ہے ۔ ان میں تلنگانہ بھی شامل ہے ۔ بی جے پی کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ اسے شمالی ہند کی ریاستوں میں آئندہ پارلیمانی انتخابات میں قدرے مایوسی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ بی جے پی شمالی ہند کے نقصانات کو جنوبی ہند سے پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہے اسے بچانے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ جنوب میں بی جے پی نے تلنگانہ کو اپنا دوسرا نشانہ بنالیا ہے ۔ ریاست میں سیاسی طور پر استحکام حاصل کرنے کیلئے منصوبے تیار کردئے گئے ہیں۔ ان پر عمل آوری بھی ہو رہی ہے۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو تلنگانہ سے زیادہ امیدیں نہیں رہ گئی ہیں۔ بی جے پی کے منصوبوں پر عمل آوری میں ریاستی قیادت نے مرکزی قیادت کی توقعات کو پورا نہیںکیا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی ریاست کیلئے نئے منصوبے بنانے پربھی غور کر رہی ہے ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے حالات کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پارٹی کیلئے نئی حکمت عملی بنانے کی کوششیںشروع کردی ہیں۔ ریاستی قائدین کے ساتھ ان کا اجلاس منعقد ہوا ۔ انہوں نے ریاستی قائدین کو اپنے مشوروں سے نوازا ہے ۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ بی جے پی میںریاستی سطح پر بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرتے ہوئے پارٹی کو انتخابات کا سامنا کرنے کیلئے پوری طرح سے تیار کیا جائے گا ۔ تمام قائدین کو الگ الگ ذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور اس کیلئے عملی اقدامات شروع کردئے گئے ہیں۔
اسی طرح بی آر ایس نے بھی اپنی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ کچھ ادھورے کاموںکی تکمیل پر توجہ دی جای رہی ہے ۔ کچھ نئے کام بھی شروع کئے جا رہے ہیں۔ پاری قائدین کے تعلق سے رپورٹس حاصل کی جا رہی ہیں۔ جو قائدین پارٹی سے ناراض ہیں ان کو منانے یا پھر ان کے خلاف کارروائی کرنے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ عوام کو بی آر ایس کے ساتھ برقرار رکھنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ جن حلقوں میںپارٹی کا موقف کمزور دکھائی دے رہا ہے وہاں پارٹی کے امکانات کو بہتر بنانے کیلئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ کانگریس بھی اپنے طور پر تیاریاں شروع کرچکی ہے ۔ صدر پردیش کانگریس ریونت ریڈی پہلے ہی ہاتھ سے ہاتھ جوڑو یاترا شروع کرچکے ہیں۔ پارٹی کے دوسرے قائدین بھی اپنے اپنے طور پر یاترائیںشروع کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ان ساری سرگرمیںکے دوران کہا جا رہا ہے کہ سیاسی قائدین کی خلاء بازیوں کا بھی بہت جلد آغاز ہوسکتا ہے ۔ کئی قائدین بی جے پی میںشمولیت اختیارکرسکتے ہیں تو کچھ قائدین بی آر ایس میں اورکچھ قائدین کانگریس میں بھی شمولیت کے منصوبے رکھتے ہیں۔ ریاست میں کہیں پس منظر میں چلی گئی تلگودیشم بھی بتدریج خود کو سرگرم کرنے کی کوشش شروع کرچکی ہے ۔ تلگودیشم میں بھی کچھ قائدین کی شمولیت کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اسطرح ریاست میں سیاسی منظرنامہ میں بڑے پیمانے پر اور بہت جلد بڑی تبدیلیوں کا آغاز ہونے کا بھی امکان ہے ۔
سیاسی تبدیلیاں کس حد تک ہوتی ہیں۔ کتنے قائدین کس جماعت میںشامل ہوسکتے ہیں۔ کتنوں کی وفاداریاں برقرار رہتی ہیں اورکتنوں کی تبدیل ہوتی ہیں یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ سیاسی سرکس کسی بھی وقت شروع ہوسکتا ہے ۔ در پردہ سرگرمیوں کا آغاز تو ہو ہی چکا ہے تاہم یہ سر عام کسی بھی وقت ہوسکتی ہیں۔ تیز رفتار سیاسی تبدیلیوں اور سرگرمیوں کے دوران عوام کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوجائے گی ۔ عوام کا فیصلہ ہی سبھی جماعتوں کیلئے حرف آخر ہو جائیگا ۔ عوام کو تمام حالات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے او ریاست کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی فہم و فراست کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔