تلنگانہ میں مالیاتی بحران ، سرکاری مصارف میں کٹوتی !

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں وقت کا رقص بڑی تیزی سے کے سی آر کے منصوبوں کو ناکام بنارہا ہے ۔ حصول تلنگانہ سے قبل یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ تلنگانہ ریاست قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور یہاں مالیاتی ذرائع میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ لیکن گذشتہ 6 سال کی ٹی آر ایس حکمرانی نے ریاست تلنگانہ کے خزانے کو خالی کردیا ہے ۔ گذشتہ چند برس تک جی ڈی پی میں سب سے اونچی شرح دیکھنے کے بعد تلنگانہ کی معیشت اس سال نازک صورتحال سے دوچار دکھائی دیتی ہے ۔ اس لیے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتارامن کو مکتوب لکھا اور ریاست کو جی ایس ٹی کا زیادہ سے زیادہ معاوضہ ادا کرنے پر زور دیا ۔ اس مالیاتی سال میں یہ رقم جمع نہیں ہوئی ہے ۔ مرکزی حکومت سے تلنگانہ کو ملنے والے فنڈس کی رقم بھی باقی ہے ۔ ٹی آر ایس ارکان پارلیمنٹ نے ریاست تلنگانہ کو دئیے جانے والے مرکزی فنڈس کی فوری اجرائی کا مطالبہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے احاطہ میں احتجاج کیا ۔ مرکز کی جانب سے تلنگانہ کو 32 ہزار کروڑ روپئے کے بقایا جات باقی ہیں لیکن مرکزی حکومت کا رویہ اس کے برعکس ہے ۔ تلنگانہ میں اقتدار کا دوسرا مرحلہ شروع ہوکر ایک سال بھی پورا ہوگیا مگر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے کئی وعدے ادھورے ہیں اور کئی اسکیمات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں ۔ کے سی آر نے تلنگانہ کے قیام سے قبل آندھرائی قائدین کے تسلط کو ختم کر کے تلنگانہ کو سنہری ریاست بنانے کا خواب دیکھاتھا ۔ وہ حصول تلنگانہ کے لیے ایک عرصہ سے اس انتظار میں کھڑے ہوئے تھے کہ ان کے سامنے آندھرائی تسلط کی دیوار گرجائے اور وہ اس کے اُس پار بسی ہوئی جنت میں داخل ہوجائیں ۔ تلنگانہ کو سنہرا بنانے کا خواب درست تھا لیکن ٹی آر ایس حکومت کی ناقص کارکردگی نے ریاست کی بنیادوں اور حصول تلنگانہ کے اصل مقصد کی جڑوں کو بوسیدہ کردیا ۔ اگر ریاست کی مالی صورتحال مزید ابتر ہوجائے تو تلنگانہ کی تاریخ کے سی آر کو ان کے عبرت خانے میں پہونچا دے گی اور عوام کو انتظار کی صبر آزما ساعتوں کے محشر سے دوچار کر کے کے سی آر نے جو غلطیاں کی ہیں اس کا خمیازہ عوام کو دیر تک بھگتے رہنا پڑیگا ۔

تلنگانہ کو سنہرا بنانے کے خواب دکھا کر کے سی آر نے جو اعلانات کیے تھے اور ان کی سوچ پر عوام نے لبیک کہا تھا اور آندھرائی قائدین کے تسلط کو اکھاڑ پھنکا تھا لیکن اب انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ منصوبے جب منظم نہ ہوں تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ معاشی انحطاط نے تلنگانہ کا مالیاتی ڈھانچہ ہی کمزور کردیا ہے ۔ اس لیے کے سی آر نے سرکاری اخراجات میں کمی لانے کی عہدیداروں اور کئی محکموں کو ہدایت دی ہے ۔ ستمبر کے اوائل میں نظر ثانی شدہ بجٹ میں انہوں نے ریاست کے جملہ مصارف میں کمی لائی تھی ۔ سال 2019-20 کے مصارف میں 1.46 لاکھ کروڑ کی کمی لائی جب کہ فروری میں یہ 1.82 لاکھ کروڑ روپئے کے مصارف کا نشانہ مقرر کیا گیا تھا ۔ اس تیزی کے ساتھ مصارف میں کمی لائی گئی کہ اس سے ریاست کی مالیاتی ابتری کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے کے سی آر نے من مانی طور پر مالیاتی اسکیمات کا اعلان کیا اور اس پر عمل آواری کو یقینی بنانے کی کوشش کی لیکن درمیان میں ہی ناکام ہوگئے ۔ 2018 کے انتخابات میں وعدے کئے گئے تھے کہ کسانوں کو فی ایکڑ 8 تا 10 ہزار روپئے مالی امداد دی جائے گی ۔ اس پر عمل آوری ہوئی اور سرکاری خزانہ خالی ہوگیا ۔ جب دیکھا گیا کہ خزانہ خالی ہورہا ہے تو کسانوں کو قرض میں ایک لاکھ روپئے تک راحت دینے کا وعدہ پورا کرنے کی ہمت نہیں کی ۔ بیروزگار نوجوانوں کو ماہانہ 3016 روپئے کا الاونس دینے کا وعدہ کیا گیا جو کہ پورا نہیں ہوا ۔ البتہ ضعیف افراد کو پنشن دینے کے وعدے کو ایمانداری سے پورا کیا گیا ۔ عمر رسیدہ افراد کو پنشن دینے کی اسکیم کا راست فائدہ کے سی آر کو ہوا ہے ۔ انتخابات میں ووٹ مستحکم کرنے کے لیے یہ اسکیم موثر ثابت ہوئی لیکن غریبوں کو دو بیڈ روم کے مکان دینے کے پروگرام میں کوتاہی کی گئی ہے ۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوا ۔ بدقسمتی سے ٹی آر ایس کو اقتدار پر لانے مسلمانوں کی سیاسی محنت رائیگاں چلی گئی ۔ ماضی میں مسلسل اقتدار کے مزے لوٹ کر اپوزیشن میں بیٹھنے والی کانگریس نے بھی مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دلانے کے لیے محنت نہیں کی ۔ کے سی آر نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو ان کی حکمرانی کا تجربہ صفر تھا پھر بھی انہوں نے ابتداء میں غلطیاں نہیں کیں لیکن جب وہ وعدوں کے سیاسی سوداگر بن گئے تو خرابیوں نے انہیں گھیرلیا ۔ تلنگانہ کے عوام نے کے سی آر کو ووٹ دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ ان کی قیادت میں حکومت ایک دن ہچکولے کھائے گی ۔ اب آپ سے کیا پردہ حکومت نے ابتدائی دنوں میں جوش و خروش کے ساتھ حیدرآباد شہر کو گلوبل سٹی بنانے کا اعلان کیا تھا ۔ پانچ سال بعد شہر پہلے جیسا بھی باقی نہیں رہا ۔ گلوبل سٹی تو دور کی بات اس کی اصل کیفیت بھی بگاڑ دی گئی ۔ سڑکوں کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ پہلے سے زیادہ خراب ہوچکی ہیں ۔ شہری انفراسٹرکچر تو تباہ ہوچکا ہے ۔ ٹریفک بے ہنگم تھی اب اس میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ چند سال قبل شہری انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے 40,000 کروڑ روپئے کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن گذشتہ ایک سال میں 4000 کروڑ روپئے بھی خرچ نہیں کئے جاسکے ۔ وزیر بلدی نظم و نسق کی حیثیت سے کے ٹی راما راؤ نے شہر کے حق میں کوئی ایماندارانہ قدم نہیں اٹھایا ۔ حیدرآباد کو عالمی شہر کا درجہ دینے کے منصوبے پر اب تک صرف کام ہی ہورہا ہے ۔ سیاسی مفادات کے کئی اقسام ہیں مگر کے سی آر نے جس قسم کا مفاد پال رکھا ہے وہ بہت ہی خطرناک ثابت ہورہا ہے ۔ وعدوں کا مفاد آگے چل کر مفاد عامہ کے لیے نقصان دہ ہوگا ۔ شہر میں ایک جماعت کا مفاد اس قدر قوی ہوتا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہونے کا بروقت ہر لمحہ ہر جگہ مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن قوم کے وسیع تر مفاد کے نام پر اب تک صرف اپنے مفاد کا بھر پور تحفظ کیا ہے ۔ بہر حال ان مفاد حاصلہ طاقتوں کو ووٹ دینے والے عوام ہی کے پاس کوئی مفاد نہیں ہے ۔ عوام جس دن اپنے مفاد کے بارے میں غور کرنے لگیں گے تو ان کی زندگیوں میں بڑی برکت ہوگی ۔
kbaig92@gmail.com