تلنگانہ کی انتخابی مہم اور بی جے پی

   

قفس پر جبکہ ہے موقوف رنگینی گلستاں کی
موافق مری قسمت سے فضائے آشیاں کیوں ہو
ملک کی سب سے نئی ریاست تلنگانہ میں انتخابی مہم کے اختتام کو اب محض چند گھنٹوں کا وقت رہ گیا ہے ۔ منگل کی شام 5 بجے انتخابی مہم ختم ہوجائے گی اور ایک اضطراب آمیز سکون پیدا ہوجائیگا ۔ ریاست میں اقتدار کی دعویدار جماعتوں کانگریس اور بی آر ایس کی جانب سے انتخابات میں عوام کی تائید حاصل کرنے شدت کے ساتھ مہم چلائی گئی ۔ رائے دہندوں کو رجھانے کیلئے کسی نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور نت نئے وعدے کرتے ہوئے انہیںاپنا ہمنواء بنانے کی کوشش کی گئی ۔ جہاں کانگریس کی جانب سے عوام کیلئے چھ ضمانتوں کا اعلان کیا گیا اور مزید کئی مراعات اور سہولیات فراہم کرنے کا تیقن دیا گیا وہیں بی آر ایس نے بھی فلاحی اسکیمات کا حوالہ دیا اور یہ تیقن بھی دیا کہ ان فلاحی اسکیمات میں مزید اضافہ ہوگا اگر ریاست میں عوام بی آر ایس کو لگاتار تیسری معیاد کیلئے اقتدار سونپتے ہیں۔ چند ماہ قبل تک بی جے پی خود کو ریاست میں بی آر ایس کا متبادل قرار دے رہی تھی تاہم ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے بی جے پی کی ہوا نکال دی ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کو کراری شکست دوچار کرتے ہوئے کانگریس کے تلنگانہ میں بھی حوصلے بلند ہوگئے اور بی جے پی آہستہ آہستہ پیچھے چلی گئی ۔ اس نے حالانکہ خود کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہیں ملی ۔ ریاستی قیادت میں بھی تبدیلی کردی گئی ۔ نئے قائدین کو کچھ ذمہ داریاں دی گئیں لیکن اس کا بھی کیڈر پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوا اور ان میں جوش و خروش پیدا نہیں ہوسکا ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی بڑی بیزاری کے ساتھ انتخابی مہم کا حصہ بنی ہے ۔ اپنے وجود کا احساس دلانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کی انتخابی مہم بھی عوام پر اثر انداز ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔ بی جے پی نے عوام کیلئے کوئی ٹھوس منصوبے اور پروگرامس پیش نہیں کئے ۔ بی جے پی کے مرکزی قائدین نے بھی محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے انتخابی مہم میں حصہ لیا اور وہ بھی عوام کے موڈ کو سمجھنے میں کامیاب نہیں رہے ۔ ان قائدین نے جو تقاریر کیں وہ ریاست کے ووٹرس کے مسائل پر مبنی نہیں تھیں اور نہ ہی عوام کو مستقبل کے منصوبوں کا کوئی خاکہ پیش کیا گیا ۔
محض چند حلقوں میںمخصوص امیدواروں کے حق میں مہم چلانے کیلئے کٹر امیج رکھنے والے قائدین کو مدعو کیا گیا ۔ یہ قائدین بھی ہمیشہ کی طرح زہر اگلنے ہی میں مصروف رہے۔ عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال ہی کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ بھی گوشہ محل ‘ ایل بی نگر اور کچھ مقامات پر گئے ۔ انہوں نے حسب روایت عوام کے سامنے بے تکی باتیں ہی کیں۔ عوام سے کہا کہ اگر وہ ایودھیا میں رام مندر کے درشن مفت کرنا چاہتے ہیں تو بی جے پی امیدواروں کو ووٹ دیا جائے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مندر درشن کے نام پر کیا ووٹ مانگے جاسکتے ہیں۔ کیا ایودھیا میں رام مندر کے درشن پر بی جے پی کی اجارہ داری ہے کہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دینے والا وہاں نہیں جاسکتا ؟ ۔ کیا ایودھیا میں مندر کے مفت درشن کرنے سے عوام کو درپیش مسائل حل ہوجائیں گے ؟ ۔ ان مسائل کے حل کیلئے ہی حکومتوں کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے لیکن بی جے پی مسائل پر بات کرنے کیلئے قطعی تیار نہیں ہے اور وہ چاہتی ہے کہ صرف مندر یا مفت راشن کے نام پر ووٹ حاصل کرلئے جائیں ۔ یہ تقاریر اور بی جے پی قائدین کا جو موقف رہا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی نے تلنگانہ میں انتخابی عمل میں اپنی شکست کو قبل از وقت ہی تسلیم کرلیا ہے ۔ وہ اقتدار کی دوڑ تو دور کی بات ہے محض چند نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کرنے کے موقف میں نہیںرہ گئی ہے اور اب راست مقابلہ کانگریس پارٹی اور بی آر ایس کے درمیان ہی رہ گیا ہے ۔
بی جے پی نے شمالی ہند کی ہندی پٹی والی ریاستوں راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھی زیادہ تر ان ہی مسائل پر توجہ دی تھی جن سے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاسکے ۔ تاہم تلنگانہ میں بی جے پی کا یہ حربہ نہ پہلے کامیاب ہوا تھا اور نہ اب کامیاب ہوسکتا ہے ۔ تلنگانہ کے عوام اپنے مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ مندر کے درشن سے ان کے مسائل کی یکسوئی ہونے والی نہیں ہے ۔ ان کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک سنجیدہ اور جدوجہد کرنے والی حکومت کی ضرورت ہے ۔ وہ بی جے پی کو نظر انداز اور فراموش کرچکے ہیں اور بی جے پی کو بھی رائے دہی سے قبل ہی اس حقیقت کا اعتراف عملا ہونے بھی لگا ہے ۔