تلنگانہ کی معیشت بچانے کے سی آر کا مودی سے ساز باز

   

ملک میں بی جے پی کا خوف دلاکر حکمرانی
شہریت قانون کیخلاف حیدرآباد میں عوام کا اپنے بل بوتے پر احتجاج

محمد نعیم وجاہت
دنیا میں زندہ ضمیر لوگوں کو ہی یادرکھا جاتا ہے ، مردہ ضمیر انسان درباری غلامی کو ہی اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں، ان لوگوں کا شمار ’ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ‘ میںکیا جائے گا۔بدلتے زمانے کے ساتھ مثالیں اور کہاوتیں بھی تبدیل کرنے کیلئے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ انگریزوں نے پھوٹ ڈال کر حکومت کی تھی تو بی جے پی خوف دلاکر حکومت کررہی ہے۔ فرقہ پرستی، مذہبی نفرت اور ہندوتوا ایجنڈے کو قومیت کا لباس پہناکر پیش کیا جارہا ہے اور ان نظریات کی مخالفت کرنے والوں کو ملک کا غدار قرار دیتے ہوئے 80 سال قبل تیار ہوئے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت کے باوجود بی جے پی کو مسلمانوں سے خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ’ مرے ہوئے کتے کو کوئی بھی نہیں مارتا‘۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ اسے صرف مسلمان ہی نقصان پہنچاسکتے ہیں تو وہ گزشتہ 6 سال سے مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کررہی ہے۔ پہلے لوجہاد، پھر گھر واپسی، گاؤکشی، آرٹیکل370، طلاق ثلاثہ ، تبدیلی مذہب کے ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو پریشان کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جس کے بعد بھی مسلمان جھکے نہیں اور نہ ہی بی جے پی کی غلامی کو تسلیم کیا۔ سارے ملک میں این آر سی پر عمل آوری کرنے سے قبل آسام میں تجربہ کیا گیا جس میں حیرت ناک انکشافات ہوئے جس سے بی جے پی ہی اپنے جال میں پھنس گئی کیونکہ آسام میں 19 لاکھ عوام کو غیر ہندوستانی قرار دیا جس میں 13 لاکھ سے زائد افراد غیر مسلم پائے گئے ہیں جس کے بعد فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والی طاقتوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ اگر اب این آر سی کرایا جاتا ہے تو ہندوستان کی 36 فیصد غیر مسلم آبادی غیر ہندوستانی کہلائے گی جس کے بعد تنگ نظریہ رکھنے والی طاقتوں نے راتوں رات پلان بی پر عمل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے این آر سی پر عمل آوری سے پہلے شہریت قانون میں ترمیم کرتے ہوئے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی اقلیتوں کو ہندوستان میں شہریت دینے کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بل منظور کروالیا اور صدر جمہوریہ نے اس پر دستخط بھی کردیئے جبکہ اس قانون کے خلاف پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور ملک کے تمام شہروں میں احتجاج جاری رہا جو آج گاؤں گاؤں پھیل گیا۔ شہریت قانون میں ترمیم کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ سیاہ قانون ہے جس سے آسام میں غیر ہندوستانی قرار دیئے گئے 13 لاکھ غیر مسلمانوں کو ہندوستانی شہریت مل جائے گی ۔ اگر کسی کو نہیں ملے گی تو وہ 6لاکھ مسلمان ہوں گے اس سے بی جے پی کا خفیہ ایجنڈہ منظر عام پر آگیا ہے کہ وہ صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے اور مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کررہی ہے۔ ہندوستان کے عوام نے جمہوریت کے تحفظ کیلئے بیدار ہونے کا متحدہ طور پر احتجاج کرتے ہوئے ثبوت دیا ہے۔ مگر ہندوستان کے ذمہ دار وزیراعظم نریندر مودی نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے ایک قسم کے لباس پہننے والے ہی احتجاج کرنے کا ریمارک کیا ہے جس سے ان کی ذہنیت آشکار ہوتی ہے۔ دوسری جانب چیف منسٹر مغربی بنبال ممتا بنرجی کے شک و شبہات کے مطابق مغربی بنگال میں بی جے پی کے کارکنوں نے لنگی اور ٹوپی زیب تن کرتے ہوئے ٹرین پر پتھراؤ کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مرکزی حکومت کے اس سیاہ قانون کے خلاف ملک کے عوام متحد ہونے پر بی جے پی اور ہندوتوا نظریہ رکھنے والے خوفزدہ ہوگئے۔ دہلی کے لال قلعہ پر پاکستان کے پناہ گزینوں سے احتجاج کراتے ہوئے اس قانون کی تائید میں مظاہرے کرانے کی کوشش کی ہے تو سوشیل میڈیا پر بھی اس مسئلہ پر تائید و مخالفت میں جنگ چھیڑدی گئی ہے۔ بل کے خلاف ہونے والی مخالفت کے ماحول کو سازگار ماحول میں تبدیل کرنے کی بھی منظم کوشش کی جارہی ہے۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کارکنوں نے لنگی ٹوپی پہن کر جو حرکت کی ہے اسی طرح کی ایک اور کوشش طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر بھی کی گئی تھی۔ چند غیر مسلم خواتین کو برقعہ پہناتے ہوئے طلاق ثلاثہ کے خلاف مہم چلانے والی برقعہ پوش خواتین کے احتجاج میں شامل کرادیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ 50 ہزار خواتین طلاق ثلاثہ کی مخالفت کررہی ہیں۔ مگر طلاق ثلاثہ کی تائید میں 5 لاکھ مسلم برقعہ پوش خواتین نے احتجاج کیا تھا جس کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔
بہر حال حیدرآباد کے بشمول ملک بھر میں سیاہ اور متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ یہ احتجاج شہر سے نکل کر دیہی علاقوںتک پہنچ گیا ہے۔ عوام بالخصوص رضاکارانہ طور پر سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ کسی قیادت اور مذہبی رہنما کی اپیل کے بغیر اپنے طور پر احتجاج میں شامل ہورہی ہے۔ جس کا حکومت پر دباؤ بڑھ رہاہے۔ حکمران ٹی آر ایس نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس قانون کی مخالفت کی تھی۔ مگر شہر حیدرآباد اور تلنگانہ کے دوسرے مقامات پر ٹی آر ایس کے قائدین بالخصوص مسلم قائدین خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بل کی تائید کرنے والی بی جے پی کی حلیف جماعتوں نے اپنی اپنی ریاستوں میںاین آر سی اور سی اے اے پر عمل آوری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اُمید ہے چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر بھی اس کا اعلان کرسکتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے والی جماعت اس اعلان کا سہرا پھر اپنے سر باندھنے کی کوشش کرسکتی ہے کیونکہ اب حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔قائدین اورمذہبی رہنماؤں کیلئے اب نوجوانوں کے احتجاج میں شامل ہونے کی بجائے دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ وہ صرف پُرامن احتجاج کرنے کی اپیل کرسکتے ہیں ۔ اب بند کمروں میں یا پُرتعیش دعوتیں اُڑاتے ہوئے فیصلہ کرنے کا وقت نہیں بلکہ عملی طور پر میدان میں کودپڑنے کا وقت ہے۔ بی جے پی کی حلیف جماعتیں جس طرح اپنا موقف تبدیل کررہی ہیں وہ صرف اور صرف عوامی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ عوام کی ہاں میں ہاں نہ ملانے پر اقتدار یا تائید سے محروم ہونے پڑتا ہے۔ جب چیف منسٹر مغربی بنگال مورچہ سنبھال سکتی ہیں تو ہمارے منتخب عوامی نمائندے اپنی ذمہ داریوں سے ہرگز فرار اختیار نہیں کرسکتے۔
انسان فطرت کی جانب ہی زیادہ مائل رہتا ہے اور اس کی فطرت کا اندازہ اس کی حرکتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر کی فطرت سے سبھی واقف ہیں، وہ دغا دینے یا وعدے سے انحراف کرنے کے ماہر ہیں، اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ کے سی آر نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کی عکاسی اُس وقت کردی جب وہ طلاق ثلاثہ، یو اے بی اے اور دیگر غیر انسانی و مخالف مسلم قوانین کی تائید کی تھی۔لیکن حالیہ عرصہ میں پیش کئے جانے والے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت سے یہ سمجھا جارہا تھا کہ چندر شیکھر راؤ بی جے پی سے دور ہونے لگے ہیں اور انہیں مسلمانوں کے درد کا احساس ہے، لیکن یہ غلط فہمی زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ سکی۔ جبکہ جن جماعتوں نے بل کی تائید کی تھی وہ اب مجبور ہوچکی ہیں کہ اس قانون کی مخالف کریں۔ لیکن ٹی آر ایس نے پارلیمنٹ میں بل کی مخالفت کی وہ اب اس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے جیسے بل کی مخالفت میں کیا جانے والا احتجاج ریاستی حکومت کے خلاف ہے۔ ٹی آر ایس قیادت نے ریاست کے مسلمانوں کو کئی مرتبہ دھوکہ دیا ہے۔ لیکن مجلس کو اپنے اقلیتی سل کی طرح استعمال کرتے ہوئے عوامی اعتماد کو برقراررکھنے میں کامیاب بھی رہی۔ مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی دھوکہ دہی میں سب سے اہم 12 فیصد مسلم تحفظات ہیں۔ مسلمانوں کیلئے سب پلان اور وقف کمشنریٹ، وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کی برخواستگی اور ایک ایک اِنچ وقف اراضی کی وقف بورڈ کو واپسی کو بھی ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اقلیتی اقامتی اسکولس کی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں پر تو بات نہیں کرتے مگر یہ ضرور کہیں گے کہ ابھی تک ایک اِنچ بھی وقف اراضی وقف بورڈ کے حوالے نہیں ہوئی ہے۔ مگر وقف اراضیات پر حکومت کی نگاہ مرکوز ہوگئی ہے۔ اقلیتی اقامتی اسکولس کو وقف اراضیات لیز پر دینے کا وقف بورڈ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ تعجب اس بات کا ہے کہ ایک، ایک اسکول کیلئے کم از کم 20 اور زیادہ سے زیادہ 50 ایکر اراضی لیز پر دینے کا دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکول قائم کیا جارہا ہے یا یونیورسٹیز قائم کی جارہی ہیں۔ ایک ، ایک اسکول کیلئے ایک یا دو ایکر اراضی لی جاسکتی ہے۔ مگر یہاں تو وقف اراضیات کا تحفظ کرنے کے نام پر وقف اراضی پر بُری نظر ڈالی جارہی ہے۔ ہم حکومت سے یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ایس سی، ایس ٹی، بی سی طبقات کیلئے جو اقامتی اسکولس قائم کئے گئے ہیں ان اسکولس کی عمارتوں کی تعمیر کیلئے کیا انڈومنٹ ڈپارٹمنٹ سے اراضیات حاصل کی جارہی ہیں۔ سماج کے ہر بچہ کو تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت محکمہ مال کے پاس موجود اراضیات کو ان اسکولس کیلئے استعمال کرسکتی ہے۔ اگر سرکاری اراضی دستیاب نہیں ہے تو خانگی افراد سے خرید سکتی ہے۔ مگر وقف اراضیات پر جو نظر رکھی جارہی ہے وہ قابل اعتراض ہے۔ حکومت کواپنی اس تجویز پر از سرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اقلیتی اقامتی اسکولس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد اور تدریسی و غیر تدریسی اسٹاف کے بارے میں کوئی سوال کرنا بھی نہیں چاہیئے۔ اگر یہ سوال اُٹھادیا گیاتو پھر ہم پر تعلیم کو بھی فرقہ پرستی کی نظر سے دیکھنے کا الزام عائد کیا جائے گا۔ مگر یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ایس سی، ایس ٹی اور بی سی طبقات کیلئے موجود اقامتی اسکولس میں اقلیتی طلبہ کی کتنی تعداد ہے اور تدریسی و غیر تدریسی اسٹاف میں اقلیتوں کی کتنی حصہ داری ہے۔
مرکزی حکومت نے مسلمانوں کی قومیت کو خطرہ میں ڈالنے والے قانون کی تیاری کے ذریعہ ملک کو جس آگ میں جھونکا ہے اس کا مقصد منافرت کے ذریعہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانا ہے۔ مرکزی حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف ممتابنرجی نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کی ہندوستان بھر میں ستائش کرتے ہوئے اس کو جرأتمندانہ اقدام قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن ماسٹر اسٹروک کے قائل کے سی آر موجودہ حالت کی آڑ میں ریاست کی معیشت کو بچانے کیلئے مرکز کو بلیک میل کرنے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی قیمت پر ریاست کی معیشت کو مستحکم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ لیکن اب عوام جاگ گئے ہیں، تھوڑی سی بھی غفلت کی قیمت ٹی آر ایس کو مجوزہ بلدی انتخابات میں چکانی پڑسکتی ہے۔