’’تم حدیث و قرآن میں کار خیر کو ڈھونڈو‘‘

   

نفیسہ خان
ہر جمعہ کی طرح آج بھی خواتین کا اجتماع تھا ، مولوی صاحب کا بیان شروع ہوا چونکہ عورتوں سے خطاب کر رہے تھے اس لئے ایک بیٹی ، ایک بہو ، ایک بیوی ، ماں و پڑوس کے ناتے خواتین کے فرائض کی لمبی چوڑی فہرست بتائے جارہے تھے جبکہ وہاں موجود زیادہ تر عورتیں ان تمام رشتوں میں مردوں کی ستائی ہوئی سطح غربت سے نچلی سطح پر افلاس و مظلومیت کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ ماں کے پیروں تلے جنت ہونے کی بات جب مولوی صاحب نے کہی تو ایک دل جلی ماں منہ ہی منہ میں بڑبڑائی کہ ہم تو پیروں تلے روندے جانے والی مائیں ہیں اور جب باپ کو جنت کا دروازہ بتایا گیا تو موجود خواتین نے بصد احترام اس جملے کی سچائی پر ، اس حدیث پر دل و جان سے قربان ہونے تیار ہوگئیں ۔ بشرطیکہ باپ شریعت کے معیار پر پورا اترے ، خونی رشتوں کا احترام کرے ۔ خاندانی سماجی ذمہ داریوں کو اٹھانے کا اہل ہو، بیوی بچوںکی پوری خوشنودی سے کفالت کرتا ہو ۔ ظالم ، شرابی ، جواری نکھٹو نہ ہو جو اسلام کے پانچ ارکان میں سے کسی ایک کی بھی تکمیل نہ کرتا ہو جس کی زبان سے مغلظات کے سوا کبھی کوئی دلجوئی کے شیریں الفاظ نہ نکلتے ہوں جس کے پیر روزی روٹی کی تلاش میں سرگرداں نہ ہوں ، قدم اٹھتے ہیں تو شراب خانوں و جوے خانوں کی طرف جبکہ مسجد کا فاصلہ اس سے بھی کم ہوتا ہے جس کے ہاتھ روٹی کمانے کیلئے حرکت میں لانے کی بجائے مارپیٹ کرنے کیلئے عورتوں پر اٹھتے ہیں جس کی زبان قرآن کی تلاوت تو دور کی بات ہے، ذکر اللہ سے تک گریز کرتی ہو لیکن گالی گلوج جس کا شیوہ ہو ، یہ ہمارے موجودہ معاشرہ کا ایک بد ترین رخ ہے جس سے چشم پوشی ممکن نہیں ہے ، ہمیں کھل کر ان مسائل پر بحث مباحثہ کرنا ہوگا ۔ اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا اور بروقت اقدام لینے میں تساہل سے کام لیا گیا تو آئین اسلام، فرقہ پرست حکومتوں کی مرضی کے مطابق بدلتے رہیں گے اور علم بردار اسلام مولوی اصحاب تبلیغی اجتماعات میں صرف تقاریر کرتے رہ جائیں گے ، خدا کی فضیلتیں ، رحمتیں ، برکتیں تو امت محمدؐیہ پر اس وقت ابر باراں بن کر برستی ہیں ، جب بندہ بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا ، صرف داڑھی ، ٹوپی ٹخنے کے اوپر پائجامہ کسی مرد کو پکا سچا مسلمان نہ مومن بناتا ہے نہ ہی اسلام کی سرخروئی کا باعث ہوتا ہے۔ چو طرف دہشت ناک ماحول اس بات کا پر تو ہے کہ نہ صرف اسلام بلکہ ہر مذہب میں الٹ پھیر، دروغ گوئی ، کینہ پروری ، رشوت خوری ، دنگا فساد کے موجد و نگران کار شامل ہوگئے ہیں، نہ اپنے افعال پر شرمندگی و خجالت ہے نہ سزا کا خوف کیونکہ قانون ، عدالتیں ، جج ، وکلاء سب بکاؤ ہوگئے ہیں ۔ قانون کا تقدس پامال ہوچکا ہے ۔ رہنمائے قوم کی بدگوئی ، عامیانہ گفتگو کوفت کا باعث ہے ۔ سیاستداں معتبر بنے اپنے الفاظ کے الٹ پھیر سے رعایا کو رجھانے اور بیوقوف بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملت محمدؐیہ کا شمار اب نچلی ذات یعنی دلتوں میں ہونے لگا ہے اور ہم بار بار سچر کمیٹی کا حوالہ و تذکرہ کر کے اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے کیلئے خود کو ذلیل و خوار کرنے سے باز نہیں آتے ، خود کو اس کا ذمہ دار ماننے ہم تیار نہیں بلکہ ہر معاملہ میں حکومت اور دوسرے لوگوں کو مورد الزام قرار دیتے ہیں۔

سبب یہی تو ہے کشتی کے ڈوب جانے کا
خدا کو بھول کے ہم ناخدا کے ساتھ رہے
دل و دماغ اگر غلط راہ کا راہی ہوجائے اور پراگندہ خیالات کی آماجگاہ بن جائے تو غلط روی قدموں کو ڈگمگا دیتی ہے ، ہم مسلمان شریعت کے اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہیں تو پھر اسلام کے دشمنوں سے کس طرح امید رکھ سکتے ہیں۔ وہ تو موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح ہماری تذلیل کی جائے ۔ مردوں کا اپنی بیویوں کے ساتھ ناروا سلوک ، دوسری عورتوں کے ساتھ غیر شرعی تعلقات کی بناء پر علحدگی ، خلع ، طلاق ، شریعت کے مطابق نان نفقہ نہ دینا وہ وجوہات ہیں جو باعث تشویش اور ا سلام کو سرنگوں ہونے پر مجبور کر رہی ہیں کیونکہ مردوں کی غفلت و بے رحمانہ سلوک سے کئی عورتیں بے گھر ہوگئی ہیں اور ان کے کردار بھی مشکوک ہوگئے ہیں برسہا برس سے ہمارے خاندان کی ہماری ملت کی لڑکیاں و خواتین بناء محرم کے دور دراز ممالک کا تنہا سفر کر رہی ہیں، آپ اس کو مجبوری پر محمول کرسکتے ہیں لیکن اسلامی ارکان کی تکمیل کے نام پر حج و عمرہ کو بھی بناء محرم کے جارہی ہیں اور لے جانے والے نام نہاد اداروں کے مالکین جو ماشاء اللہ باریش ، صوم و صلوٰۃ کے پابند مومن مسلمان ہی ہوتے ہیں جو غلط دستاویزات ۔ پاسپورٹ تیار کرنے میں ان کے جرم میں شریک ہوتے ہیں کسی خاتون کو کسی اور کی بیوی کسی کی بہن ، کسی کی ماں کو کسی اور سے منسوب کردیتے ہیں۔ اس کو وہ باعث ثواب سمجھتے ہیں جبکہ ان کیلئے یہ ایک تجارت ہے اور اس حرام کی کمائی کیلئے مکہ مدینہ جیسے مقام پر بھی ان کو اپنے گناہوں کا احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوتی ہے ۔ جب موجودہ حکومت کی جانب سے خواتین کو بغیر محرم کے بھی حج و عمرہ پر جانے کی اجازت کا اعلان ہوتا ہے تو حکومت پر شریعت میں دخل دینے کا الزام لگا کر ہنگامہ آرائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اسلام دشمنی پر دھواں دھار تقاریر کا سلسلہ ملک کے ماحول میں کشیدگی پیدا کردیتا ہے ۔ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں ، وقت کے ساتھ قدریں بدلتی رہتی ہیں۔ بدلتے حالات، تعلیمی نظام ، خواتین کے حقوق اور ان کے جائز مطالبات کا خیال رکھتے ہوئے ان تبدیلیوں کو اپناتے ہوئے اپنی شریعت و انفرادیت پر خود کو قائم رکھنا اور ترقی کرتے ہوئے آگے بڑھنا بہت ضروری ہے ۔ یہی انفرادیت ہمارے مذہب اسلام ، ہمارے خاندان کی تہذیب و تمدن کا ایک ایسا روپ اختیار کرلیتی ہے جو ہمارے ایمان کے شایانِ شان ہوتی ہے ۔ اگر گھروں میں لڑائی جھگڑوں کا ماحول ہوتا ہے اور بد زبانی رشتوں کے تقدس کو متاثر کرتی رہتی ہے ، تب بھی بچوں کا کوئی بھی گستاخانہ رویہ یا منفی جواب ہم سے برداشت نہیں ہوتا ، ان کی اونچی آواز ہماری سماعت پر گراں گزرتی ہے، گھر میں اسلامی مذہبی خوشگوار پرسکون ماحول نہ ہو تو بچوں کا یہ نازیبا انداز ہم کو برداشت کرنا پڑے گا ۔

باپ کا ماں سے ظالمانہ سلوک ہو تو بچوں کے ذہن کی نشو و نما کسی اور سمت میں ہوتی ہے، جہاں تشدد و نفرت کے جذبات پنپنے لگتے ہیں گھر کے بزرگ اگر شفقت و محبت سے نہ پیش آئیں تو وہ بھی ان کی طرف سے بدگماں ہوجاتے ہیں، ہم بچوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی پسند ناپسند ان پر مسلط کرتے ہیں جبکہ چھوٹوں کو اپنا طرفدار بناکر ان کی صحیح سمت میں رہنمائی کرسکتے ہیں۔ بچوں کے سامنے جب دوسروںکی غیبت و برائیاں ہوتی ہیں تو ان کا ذہن بھی منفی خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے ، مثبت احساسات سماج کی خوشگوار تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے ۔ اگر ایک دیندار مرد اسلام کے ہر اصول پر کاربند ہو تو وہ نہ صرف ا پنے بیوی بچوں بلکہ پورے خاندان بلکہ سماج و معاشرہ کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا ۔ ہمارے ملک میں جہاں کئی مذاہب ہیں اور مسلک کے اپنے عائد کردہ اتنے اصول ہیں کہ ایک اسلام ، ایک قرآن کے ہوتے ہوئے خود کی مساجد ، عیدین تہوار تک الگ کرلئے ہیں ، ان کی نمازوں کے اوقات اور طریقے بھی الگ ہوگئے ہیں چونکہ ہم حیدرآباد سے دور رہتے ہیں تو ا کثر تبدیلیوں کا احساس ہمیں دیر سے ہوتا ہے ، ایک رمضان کی عید پر ہم حیدرآباد ہی میں تھے، ہم نے ہمارے محلے میں صبح سات بجے سے غیر معمولی چہل پہل محسوس کی ، دیکھتے ہی دیکھتے موٹر سائیکلوں ، موٹروں کو پارکنگ کی جگہ میسر آنا مشکل ہوگیا، عید کی رونق گلیوں میں اتر آئی تھی ، مرد اصحاب اپنی برقعہ پوش بیویوں بہنوں ماؤں بچوں کے ساتھ جوق در جوق بلدیہ کے پلے گراؤنڈ کی طرف بڑھ رہے تھے ، ہم نے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ اہل حدیث کی عیدین کی نماز ٹھیک آٹھ بجے اس گراؤنڈ میں ادا کی جاتی ہے جبکہ ہم نے کبھی کسی محلے کی مسجد کا آج تک رخ نہیں کیا ہے۔ اب شائد اس مسلک والوں نے اپنی مساجد بنالی ہیں اس لئے پلے گراؤنڈ میں آنا ترک کردیا ہے، جب اہل حدیث کی عید کی نماز شروع ہوئی تو پہلی بار ایسا ہوا کہ گھر کے بچوں کو ہم تشفی بخش جواب نہ دے سکے ۔ جب وہ پوچھنے لگے کہ یہ مرد و خواتین کھلے میدان میں کیوں نماز پڑھ رہے ہیں۔ ہماری مسجد میں کیوں نہیں پڑھی جارہی ہے اور باوجود نماز شروع ہونے کے ہم لوگ گھر میں ہیں ، ان صفوں میں کیوں شامل نہیں ہورہے ہیں ؟؟ نئی نسل کے لڑکے لڑکیاں اسی طرح کبھی بحث بلکہ حجت پر اتر آتے ہیں کہ فلاں دوست یوں نماز پڑھتا ہے ، فلاں خاندان والے چھبیس رمضان ہی کو عید منالیتے ہیں جبکہ وہ بھی مسلمان ہیں، فلاں محلے میں سوگ کے دن یوں ہوتے ہیں ، فلاں مسجد کے امام صاحب یوں فرما رہے تھے ، فلاں ملا مرشد مولوی کا بیان یوں تھا تو ماں باپ کی لاعلمی و بیکار کی دلیلیں ان کو اپنا ہم خیال بنانے کی انتھک کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی تشفی نہیں ہوتی جبکہ ان کا ایک جملہ کافی ہوتا ہے کہ اللہ ، اللہ کا رسول اور اس کی کتاب قرآن سچ ہے، باقی سب باطل ہے ، ترجمے سے گہرائی میں جاکر قرآن کی تفسیر و ترجمہ پڑھو اور اس پر عمل پیرا ہوجاؤ، شرپسند مسلمانوں نے تو احادیث کے بھی معنی و مطلب بدل کر توڑ مروڑ کر اپنے مطلب کے مطابق تراشنے اور اسلام کو بد نام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے

جبکہ قرآن میں عملوالصلحات کا ذکر آیا ہے کیونکہ اللہ نے علم حاصل کرنے ، تبلیغ و بیان کے ساتھ عمل کی تاکید کی ہے ، ہمارے دل میں پوشیدہ خیالات و باطن کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ہمارا ظاہر ، ہمارا عمل ، ہماری زبان ، ہمارا انداز گفتگو ایک مثال بن سکتے ہیں۔ ثابت قدمی کے ساتھ صبر و استحکام سے ہر مسئلہ کا حل نکالنے اور اسلام کو سرخرو کرنے کی طرف مائل بہ قدم ہونا چاہئے۔ ہر دور میں مومن بندوں پر ظلم و زیادتی ہوتی رہی ہے۔ نامساعد حالات کی یورش سے جو شکست کھاجاتے ہیں ، ہمت ہار بیٹھتے ہیں ، پسپا ہوجاتے ہیں، انہیں ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا ۔ قرآن دستور حیات ہے اور اس پر ایمان لانے والا کبھی راستہ نہیں بھٹک سکتا ۔ منزل انہیں کو ملتی ہے جو ثابت قدم ہوتے ہیں۔ وہی آسودہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں ۔ موجودہ جن کے قدم … ان کا نصیب بن گئیں حالات میں دنیا بھر میں اسلام مورد الزام ہے ۔ مسلمانوں کی ترقی کی راہ گزر کو ہمت شکن بنا رہی ہے لیکن اگر آگے بڑھنے کا ولولہ ہو تو مومن کے حوصلوں کو پست کرنا آسان بھی نہیں ہے ، آلام کی یورش سے گھبرا جانا فطری بات ہے لیکن وقتیہ پریشانیاں، مصیبتیں ہمیں آزماتی ہیں ، اسی کے ساتھ ہماری پوشیدہ قوتوں و طاقتوں ، حوصلوں کو جلا دیتی ہیں۔ ہمت و حوصلے کے ساتھ مقابلہ نہ کرنا بزدلی کی علامت ہے ۔ کامیابی سے ہمکنار ہونے کا عزم ہو تو مشکل راستے بھی منزل مقصود کا پتہ دینے لگتے ہیں۔ آج کل کے دور میں معاشی و سماجی مسائل سنگین ترین صورت اختیار کئے ہوئے ہیں، ان مسائل و حقائق کو پوری طرح محسوس کرنا ان کو منظر عام پر لانا اس کا اظہار کرنا ان کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کرنا اور پھر سے روشنی کی طرف مائل کرنا ہر شخص کا فرض ہے جس سے ہم سب خودغرض بن کر دامن بچاتے ہیں، نظریں چراتے ہیں ، یہ ہماری مصلحت آمیزی ہے ورنہ بے زبان کوئی بھی نہیں ہوتا، بزرگوں کے پاس تجربات ہیں ، وہ بہترین ماحول تہذیب و تمدن کے پالے میں خاندانی اقدار کا انہیں پاس و خیال ہے اور قوت گویائی بھی ہے لیکن چپ اس لئے ہیں کہ ان کی خوبیاں سلب ہوچکی ہیں یا ان کے پاس اپنے خیالات اپنے کردار کی عکاسی کیلئے الفاظ نہیں یا طریقے نہیں ہیں، ٹی وی ، اخبار سوشیل میڈیا پر ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ جنسی بے راہ روی، قتل و خون اورغارت گری کا بازار گرم ہے اور ہم بے بس تماشہ بین بن کر رہ گئے ہیں ، ایمان صرف ارکان کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ عملی دنیا سے برائیوں کو مٹانے کا نام بھی ہے ، ملت کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا بھی ثواب جاریہ ہے ۔ ہماری رہنمائی کو قرآن سے بڑھ کر اب اور کسی رہنما کی ضرورت کہاں باقی رہ جاتی ہے ، بس آگاہی ضرورت ہے اور فی زمانہ اسی کا کال پڑا ہوا ہے۔ مسلمان اپنے بنیادی مسائل کو خود حل کرنے کی بجائے حکومت و سیاسی جماعتوں کے مرہون منت ہوتے ہیں، ہر معاملے میں حکومت کی مدد کے طلبگار ہیں، ہر ملک کی نصف آبادی صنف نازک پر مشتمل ہے ۔ اگر ان کے ساتھ بھی انصاف نہ ہوگا ، ان کا حق ان کو نہ دیا جائے گا ۔ ان کی تعلیم، صحت و ضروریات زندگی کی خاطر خواہ تکمیل نہ کی جائے گی تو شریف عورتیں و معصوم لڑکیوں کی عصمت ریزی اور بیٹیاں مفلسی سے تنگ آکر فاحشہ بن کر جسم فروشی پر اتر آئیں گی۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ ؎
تم حدیث و قرآں میں راہِ خیر کو ڈھونڈو
ختم ہوچکا ہے باب انبیاء کے آنے کا