تم زمین والوں پر رحم کرو

   

ابوزہیر سیدزبیرھاشمی نظامی
احادیث مبارکہ میں ’’لیلۃ النصف من شعبان‘‘ یعنی شعبان المعظم کی پندرہویں رات کو شب براء ت قرار دیا گیا ہے۔ اس رات کو براء ت سے اس وجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس رات عبادت کرنے سے اﷲتعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا اور نجات عطا کرتا ہے۔
مکاتب فکر کے تمام فقہاء اور علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو مسئلہ بھی قرآن مجید یا احادیث مبارکہ سے ثابت ہوجائے، اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اور وہ احادیث شریفہ جو اِس متبرک رات کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہیں، بہت سے صحابہ کرام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہیں۔سلف صالحین اور اکابر علمائے امت کے احوال سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس رات کو عبادت کرنا انکے معمولات سے تھا۔لہذا اس رات میں قیام کرنا، گناہوں کی مغفرت طلب کرنا، کثرت سے تلاوت کرنا، عبادت کرنا اور دعا کرنا مستحب عمل ہے اور یہ اعمال احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہیں۔
حضورنبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں شب جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا: ’’یارسول اللہ! آپ اس رات نماز پڑھ کر اپنی امت کے لئے دعا مانگیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کرنے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے حق میں دعا کو قبول فرماتا ہے‘‘۔ یہ بھی ہمیں بتایا گیا کہ اس رات قضاء، رزق اور حوادث کے فیصلے سپرد کئے جاتے ہیں۔ حضورنبی کریم ﷺنے اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے ارشاد فرمایا کہ ’’اس رات میں آئندہ سال کے ہر پیدا ہونے والے اور مرنے والے کا نام لکھا جاتا ہے اور اسی رات بندوں کے اعمال رب کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور رزق کے فیصلے ہوتے ہیں‘‘۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا کی طرف توجہ فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون مجھ سے مغفرت کا طلبگار ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں، کون مجھ سے رزق طلب کرتا ہے کہ میں اس کو رزق عطا کروں اور کون مصیبت میں مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت دوں‘‘۔ (ابن ماجہ شریف)
شب براء ت کی رحمتیں اور برکتیں تو اس قدر وسیع ہیں کہ جس سے ہر ذی روح مستفید ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس بابرکت رات کے ہر لمحہ میں نازل ہونے والی سعادتوں سے مستفید ہونے کے لئے آداب و احترام کے ساتھ اس شب میں عبادتوں، ریاضتوں، توبہ و استغفار اور تسبیح و تہلیل کا خاص اہتمام کرتے ہیں، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ بخششوں اور مغفرتوں والی اس رات میں ہم عموماً حقوق العباد کی ادائیگی میں ہونے والی کوتاہیوں کی تلافی کی فکر نہیں کرتے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کے مطابق اس کی ادائیگی کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ حقوق اللہ کی اہمیت مسلمہ ہے، جس سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بجالانا بھی ازحد ضروری ہے، کیونکہ بندوں کے حقوق اللہ تعالیٰ اسوقت تک معاف نہیں فرماتا، جب تک بندہ خود معاف نہ کردے۔ چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا، جس کی شرارتوں سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہ ہوگا‘‘ (مسلم شریف)۔حضورنبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’تم میں بہترین شخص وہ ہے، جس سے دوسرے خیر کی امید رکھیں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں‘‘ (ترمذی شریف)۔
یعنی بہترین انسان وہ نہیں، جو اپنے ذاتی نفع اور مفاد کا خواہش مند ہو، بلکہ بہترین شخص وہ ہے جو بلالحاظ مذہب و ملت ساری انسانیت کے لئے کارآمد ہو۔ اگر ہم اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر جذبۂ خدمت خلق کے تحت کام کرنا شروع کردیں تو کامیابی ہمارا قدم چومے گی۔ہمارے آقا حضورنبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے۔ تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا‘‘۔ (مسلم شریف)حضورنبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ’’حق تعالی اس رات میں تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے مشرک، کافر، جادوگر، نجومی، زانی، شرابی، کینہ پرور، سود خور، ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے اور رشتہ قطع کرنے والے کے‘‘۔
حضورنبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اس رات میں سو (۱۰۰) رکعت نفل پڑھے گا، رب تبارک و تعالی اس کے پاس سو فرشتے بھیجے گا۔ تیس جنت کی خوش خبری سنائیں گے، تیس دوزخ کے عذاب سے مامون رکھیں گے، تیس دنیا کی آفات دور کریں گے اور دس شیطان کے مکر سے بچائیں گے‘‘۔ (تفسیر کبیر)