توہین مذہب کا قانون پاکستانی ’اقلیتوں کے سر پر لٹکتی تلوار‘

   

اسلام آباد : قانون غلط استعمال ہو، تو نتائج کا سامنا عوام کریں۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کراچی ایئر پورٹ پر ایک مسیحی خاتون سکیورٹی اہلکار کے ساتھ پیش آنے والا حالیہ واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔سول ایوی ایشن کی مسیحی ملازمہ ثمینہ مشتاق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ اس ادارے کے شعبہ ویجیلنس سے تعلق رکھتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان کے اپنے ہی ادارے کے ایک مسلمان ساتھی ملازم سلیم نے معمولی تکرار کے بعد ان پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام عائد کر دیا۔ثمینہ مشتاق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”گزشتہ جمعرات کو سلیم نے اپنے دوستوں کی ایک گاڑی ممنوعہ علاقے میں پارک کرنے کی کوشش کی، وہ بھی کلیئرنس والی گاڑیوں کے ممنوعہ علاقے میں۔ اس پر میں نے اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اسے روکا تو اس نے مجھ پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دیا۔ سلیم چِلا رہا تھا اور اس کی آواز سن کر وہاں لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ لہٰذا مجھے اندیشہ تھا کہ میرے ساتھ بھی ویسا ہی واقعہ پیش نہ آ جائے، جیسا سیالکوٹ مین ہوا تھا۔ اس لیے میں نے اپنے موبائل فون سے ویڈیو ریکارڈنگ کرنا شروع کردی تاکہ کسی بھی ناخوش گوار واقعے کی صورت میں میری بے گناہی ثابت ہو سکے۔‘‘