تیرے ہر جھونکے سے بارود کی بو آتی ہے

,

   

عوام دوا سے محروم …پردھان سیوک کو محل کی فکر
فلسطین پر مظالم … مودی کو نتن یاہو سے دوستی کی اہمیت

رشیدالدین
’’روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘ ملک کے موجودہ حالات میں وزیراعظم نریندر مودی کیلئے یہ مثال معمولی اور چھوٹی پڑ جائے گی۔ ملک میں موت کا ننگا ناچ جاری ہے ۔ روزانہ ہزاروں افراد وائرس کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ شمشان اور قبرستانوں میں جگہ کی قلت ہوچکی ہے۔ خوف و دہشت کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے عزیزوں کی تدفین اور آخری رسومات انجام دینے کیلئے تیار نہیں۔ رضاکارانہ تنظیموں کے ذریعہ یہ کام انجام دلاکر ویڈیو کالنگ کے ذریعہ مشاہدہ کر رہے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آخری رسومات کے بغیر لاشوں کو پانی میں بہادیا جارہا ہے اور اترپردیش سے یہ لاشیں بہار تک پہنچ گئیں۔ انسانی لاشیں جانوروں اور پرندوں کی غدا بن رہی ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ملک کے پردھان سیوک کئی دنوں سے لاپتہ ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ خود کورونا کے خوف سے ہمالیہ کی کسی چوٹی پر گیان دھیان میں مصروف ہوچکے ہیں۔ عوام مصیبت میں مبتلا ہوں اور ملک کا وزیراعظم ان کے درد کا سامان کرنے کیلئے موجود نہ ہو تو اس سے بڑی بدخدمتی اور ملک کی بدقسمتی کیا ہوگی ۔ عوام دوا کے لئے ترس رہے ہیں لیکن ملک کے پردھان سیوک اپنے محل کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ لوگوں کے پاس لاشوں کو ٹھکانے لگانے جگہ نہیں لیکن نریندر مودی کیلئے 22,000 کروڑ سے محل تعمیر کیا جارہا ہے ۔ مودی کی آبائی ریاست کے اخبار گجرات سماچار نے صفحہ اول پر سرخی لگائی کہ جب عوام کورونا سے مر رہے ہیں تو پردھان سیوک تانا شاہ بن رہے ہیں۔ 22,000 کروڑ سے فقیر اپنا گھر بنا رہا ہے ۔ مودی نے خود کئی بار کہا تھا کہ ہم تو فقیر ہیں جھولا لے کر نکل جائیں گے ۔ فقیر کی کٹیا اور اس کے جھولے کی مالیت 22,000 کروڑ ہے۔ ملک میں آکسیجن اور دواؤں کو لوگ ترس رہے ہیں اور دواخانوں میں بستروں پر بے بسی کے عالم میں دم توڑ رہے ہیں ۔ ایسے میں وزیراعظم کیلئے محل سے زیادہ عوام کو بہتر علاج کی ضرورت ہے۔

ملک میں جہاں کہیں بھی کورونا کا قہر عروج پر ہے ، بس ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے ’’اگر علاج بہتر ہوتا تو موت واقع نہ ہوتی، اچھا علاج ملتا تو لوگ بچ جاتے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ہر کوئی شکایت کر رہا ہے کہ علاج کی سہولت نہیں ہے ۔ جب علاج میسر نہ ہوں اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں دم توڑتے رہیں تو پھر اسے نسل کشی ہی کہا جائے گا کیونکہ حکمرانِ وقت موت کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ تاناشاہ کون ہے، اس بارے میں میڈیا اور عدلیہ کو شائد ابھی تلاش جاری ہے۔ جس طرح مریضوں کو ہاسپٹل کے بستروں کی تلاش ہے ، اسی طرح عدلیہ اور میڈیا الفاظ ڈھونڈ رہے ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے آکسیجن کی کمی سے ہونے والی اموات کو نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔ اس لئے حکومت ذمہ داری کی تکمیل میں ناکام ہوچکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں قتل عام اور نسل کشی کا ماحول ہو تو پھر اس کا مجرم کوئی تو ضرور ہوگا۔ آخر اس کی نشاندہی اور سزا دینے کا کام کون کرے گا۔ عوام جس طرح تیزی سے مر رہے ہیں ، اتنی ہی تیزی سے محل کی تعمیر کا کام جاری ہے ۔ شائد پردھان سیوک کو آئندہ عام انتخابات میں اقتدار پر واپسی کا یقین نہیں ، لہذا وہ جاریہ میعاد میں ہی محل میں قدم رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر عوام کی زندگی سے زیادہ محل کی تعمیر کی اہمیت ہو تو پھر ایسے حکمراں کو تانا شاہ نہیں تو کیا کہیں گے ۔ محل کی تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم میں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیس جیسے 15 ادارے قائم ہوسکتے ہیں۔ انسانی جانوں کے اتلاف پر حکمرانوں کی اندرون ملک بے حسی کا یہ عالم ہے تو دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بربریت اور فضائی حملوں میں فلسطینی جیالوں کی شہادت پر ہندوستان بے حسی اور لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب درد مند دل اور دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنے والا ضمیر نہ ہو تو پھر کسی کی موت کا غم کیونکر ہوگا ۔ ویسے بھی گجرات قتل عام کے ماسٹر مائینڈ کے لئے انسانی اموات محض کھیل تماشہ سے کم نہیں۔ گجرات قتل عام کے بعد مودی سے اموات پر دکھ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ گاڑی کے ٹائر کے نیچے کتے کا بچہ آجائے تو بھی تکلیف ہوتی ہے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو ملک میں علاج نہ ملنے سے ہونے والی کورونا اموات کی اہمیت مودی کے نزدیک شائد کتے کے بچے سے بھی کم ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ رہی ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں ظلم ہو اس نے آواز بلند کی ۔ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ جس شخص کا گھر دار ، پریوار اور رشتہ دار ہوں وہ فطری طور پر ہمدرد ہوتا ہے اور وہ دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرسکتا ہے۔ ماہرین کی اس رائے کے بعد ملک کے پردھان سیوک کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جس شخص نے شریک حیات کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دیا ، ایسے شخص سے دوسروں کے حق میں ہمدردی کی امید رکھنا عبث ہے۔ کورونا کی پہلی لہر میں عوامی کرفیو کے بعد لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے دنیا بھر میں تاثر دیا گیا کہ حکومت واقعی عوام کی ہمدرد ہے۔ جب من کرتا مودی ٹی وی اور ریڈیو پر من کی بات سنانے آجاتے اور عوام کو بہلانے کیلئے طرح طرح کے کھیل کھیلے گئے۔ دنیا نے دوسری لہر کے بارے میں انتباہ دیا تو مودی اینڈ کمپنی الیکشن میں مصروف ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ ڈکٹیٹر اور تاناشاہ کو ہمیشہ اقتدار کی فکر رہتی ہے۔ کورونا کی ابتر صورتحال نے دنیا بھر میں ہندوستان کی ناک کٹادی ہے۔ حکومت کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے 30 سے زائد ممالک نے اپنے طور پر آکسیجن اور دیگر طبی امداد کا پیشکش کیا۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ پردھان سیوک نے امداد کرنے والے ممالک کا سرکاری طور پر شکریہ تک ادا نہیں کیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پرچار کرنے والے اور عرب ممالک کو دہشت گردی کے مراکز قرار دینے والے جارحانہ فرقہ پرستی کے علمبردار کیسے بھول سکتے ہیں کہ سب سے پہلے عرب ممالک نے امداد روانہ کی۔ یہ اسلام کا وصف ہے کہ اس نے انسانیت کی تعلیم دی ۔ سعودی عرب ، قطر ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور دوسروں نے یہ نہیں دیکھا کہ مودی حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہے ۔ جن کی فطرت میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت ہو تو کا اظہار کہیں نہ کہیں ضرور ہوجاتا ہے ۔ سعودی عرب سے آکسیجن حاصل کی گئی لیکن عوام کے سامنے شرمندگی سے بچنے کیلئے سعودی عرب کے پرچم والے ٹینکرس پر ریلائنس کے پوسٹر لگادیئے گئے تاکہ سعودی پرچم اور اس پر درج کلمہ طیبہ ظاہر نہ ہو لیکن اسلام کے چراغ کو پھونکوں سے بجھایا نہیں جاسکتا۔ جب سعودی آکسیجن ٹینکرس سڑک پر عوام کے درمیان پہنچے تو کلمہ طیبہ پر ریلائنس کا پوسٹر ٹک نہ سکا۔ یہ قدرت کا کرشمہ ہی تھا کہ کلمہ طیبہ کے حروف عوام پر عیاں ہوگئے ۔ عام شہریوں کے علاوہ کئی تنگ نظر بھی ایسے ہوں گے جن کی زندگی اسلامی ملک کی آکسیجن سے بچی ہوگی ۔ ان کی رگوں میں عربوں کی آکسیجن دوڑ رہی ہے ۔ کم از کم اب تو سدھر جائیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم سے باز آجائیں۔

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بربریت پر نریندر مودی کی خاموشی عوام کے لئے باعث حیرت اس لئے بھی نہیں ہے کیونکہ دنیا میں نتن یاہو کے سب سے جگری دوست کا نام نریندر مودی ہے ۔ مودی نے اپنی دوستی کا حق تو ادا کیا لیکن ہندوستان کی روایات سے انحراف کیا ہے ۔ 1948 ء سے ہندوستان فلسطین کا حامی رہا ہے ۔ فلسطینیوں کے پیر میں کانٹا چبھا تو اس کا درد ہندوستانیوں نے محسوس کیا تھا۔ مرکز میں بی جے پی کے برسر اقتدار آتے ہی سب کچھ الٹ گیا اور فلسطین کی جگہ نتن یاہو سے ہمدردی کی جانے لگی۔ ہندوستان کی عظیم روایت کا احترام کرتے ہوئے اسلامی تعاون کونسل کے اجلاس میں ہندوستان کو مبصر کا درجہ دیا گیا جس کا صلہ مودی نے کچھ یوں دیا کہ فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش ہیں۔ حکومت کا یہ حال ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بھی بے حسی کا شکار ہیں۔ حکومت کو جھنجھوڑنے کیلئے کوئی مسلم قائد اور تنظیم میدان میں آنے کیلئے تیار نہیں۔ مودی کا خوف کچھ اس طرح ہے کہ مسلمان صرف بیان بازی تک محدود ہوچکے ہیں۔ مودی کو ٹرمپ کا حشر بھولنا نہیں چاہتئے جو اسرائیل کے کٹر حامی تھے۔ ظلم اور ظالم کا ساتھ دینے والوں کا حشر یہی ہوتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اسرائیل کی تائید نریندر مودی حکومت کو لے ڈوبے گی ۔ نریندر مودی نے اسرائیلی مظالم پر ٹوئیٹ تک نہیں کیا ۔ حالانکہ وہ ہر معمولی بات پر ٹوئیٹ کیلئے مشہور ہیں ۔ اپوزیشن جماعتیں جن میں نہرو اور گاندھی کی وراثت کا دعویٰ کرنے والے بھی خاموش ہیں۔ غیر جانبدار تحریک کے بانیوں میں جواہر لال نہرو ، مارشل ٹیٹو اور مصر کے جمال عبدالناصر کا اہم رول رہا لیکن نریندر مودی حکومت نے نہ صرف غیر جانبدار تحریک بلکہ سارک کو بھی عملاً ختم کردیا ۔ فلسطینیوں سے ہمدردی کیلئے کم سے کم اسرائیلی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرتے ہوئے احتجاج درج کرانا چاہئے تھا۔ 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اقوام متحدہ میں ہندوستان کے وزیر خارجہ کریم بھائی چھاگلا نے جو تقریر کی تھی اس پر اسرائیلی وزیراعظم ابا ابان نے کہا تھا کہ یہ ہندوستان کا وزیرخارجہ نہیں بلکہ کسی عرب ملک کا وزیر خارجہ بول رہا ہے۔ کیفی اعظمی نے شہرہ آفاق نظم ’’مقتل بیروت‘‘ میں کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
اے صبا لوٹ کے کس شہر سے تو آتی ہے
تیرے ہر جھونکے سے بارود کی بو آتی ہے