تیرے ہر جھونکے سے بارود کی بو آتی ہے

,

   

مودی کی فلسطین سے ہمدردی… الیکشن مجبوری
راہول اور پرینکا … بی جے پی کی اہم رکاوٹ

رشید الدین
’’چلو آخر کار فلسطینیوں پر نریندر مودی کو رحم تو آیا‘‘۔ وزیراعظم نریندر مودی کا ٹوئٹ جیسے ہی وائرل ہوا ہمیں گمان ہوا کہ شاید یہ بھی کسی کی شرارت ہے اور نریندر مودی کے نام سے فیک ٹوئٹ وائرل کردیا گیا۔ مودی اور فلسطین سے ہمدردی یہ بات اس لئے بھی ہضم نہیں ہوتی کیونکہ وزیر اعظم نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سب سے پہلے اپنے دوست بنجامن نتن یاہو کو فون کرتے ہوئے مکمل تائید کا بھروسہ دلایا تھا۔ اتنا ہی نہیں مودی نے مزاحمتی گروپ حماس کو دہشت گرد قرار دیا۔ غزہ میں اسرائیلی حملے میں 500 سے زائد افراد کی موت پر جب دنیا مگرمچھ کے آنسو بہا رہی تھی، مودی نے بھی فلسطین کے حق میں گھڑیالی آنسو بہا دیئے۔ جب اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ٹوئٹ مودی کے افیشل اکاؤنٹ سے کیا گیا تو ہمیں یقین کرنے میں تامل ہو رہا تھا کیونکہ مودی کا مزاج اور ان کی پالیسی دنیا پر عیاں ہے۔ جنہوں نے آج تک مسلمانوں کی ہلاکتوں پر افسوس نہیں کیا ان سے فلسطینیوں کی تائید کی توقع کرنا فضول ہے۔ مودی کے ٹوئٹ میں ہاسپٹل میں ہلاکتوں پر صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کی گئی اور زخمیوں کی عاجلانہ صحتیابی کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا۔ مودی نے اسرائیل ۔ فلسطین تنازعہ میں شہریوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا۔ مودی کا یہ ٹوئٹ ملک کے انصاف پسند عوام کے لئے یقینا حیرت کا باعث تھا کہ اچانک یہ خبر آئی کہ مودی نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے فون پر بات کی۔ وزیر اعظم نے فلسطینیوں کی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا اور انسانی بنیادوں پر امداد کا یقین دلایا۔ مودی کا ٹوئٹ ہو یا پھر محمود عباس سے فون پر بات چیت دونوں میں کہیں بھی اسرائیل کی بربریت اور وحشیانہ حملوں کی مذمت نہیں کی گئی۔ انسانی بنیادوں پر امداد کا تیقن تو ٹھیک ہے لیکن مودی پہلے اپنے دوست نتن یاہو کو غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کی ترغیب دیں۔ اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں پر برقی، پانی، ادویات، اناج اور دیگر بنیادی ضرورتوں کی رسائی پر پابندی لگا دی ہے۔ مودی کی فلسطینیوں سے ہمدردی دراصل ضابطہ کی تکمیل ہے لیکن اسرائیل پر کوئی ناراضگی یا اس کی مذمت بھی نہیں ہے۔ مودی کا بیان اسرائیل کے اس جواب کے بعد آیا جس میں امریکہ کے ساتھ مل کر نتن یاہو نے غزہ کے ہاسپٹل میں دھماکہ کے لئے حماس کو ذمہ دار قرار دیا۔ اسرائیل کو کلین چٹ دینے کے لئے امریکی صدر بائیڈن خود پہنچ گئے تھے۔ نریندر مودی اپنے جگری دوست کے خلاف ٹوئٹ یا بیان دینے کی ہمت نہیں رکھتے۔ اسرائیل کا مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جو موقف ہے تقریباً وہی خیالات مودی اور بی جے پی کے ہیں۔ مودی نے فلسطینیوں سے ہمدردی تو کی لیکن یہ بھول گئے کہ حملوں کے ذمہ دار ان کے دوست ہیں جن کے ساتھ اسرائیل کے ساحل سمندر پر مودی نے معاہدات کئے تھے۔ نتن یاہو نے ہاسپٹل کو نشانہ بناتے ہوئے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ مودی کو فلسطینی عوام سے اچانک ہمدردی پر مبصرین کی جانب سے کئی تبصرے کئے جارہے ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ شاید ہندوستان کی روایتی موافق فلسطین پالیسی کا خیال آگیا۔ اٹل بہاری واجپائی کا وائرل بیان بھی مودی کے ٹوئٹ کا سبب ہوسکتا ہے جس میں واجپائی نے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کے تخلیہ کی وکالت کی تھی۔ کیا نریندر مودی کا دل واقعی بدل گیا اور یہ ان کے من کی بات ہے؟ ہاں تحریر تو مودی کے نام سے ہے لیکن اس بات کی گیارنٹی نہیں کہ جو ٹوئٹ میں کہا گیا وہی دل اور زبان پر ہو۔ خیر کچھ بھی ہو لیکن فلسطینیوں سے ہمدردی میں بھی چالاکی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایسی مذمت کس کام کی جس میں حملہ آور کا کوئی تذکرہ نہ ہو۔ ہلاکتوں پر افسوس ہے لیکن قاتل کی نشاندہی نہیں الٹا پشت پناہی کی جارہی ہے۔ نریندر مودی کا ٹوئٹ انسانی ہمدردی کے تحت ہے یا پھر الیکشن کی مجبوری؟۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں سیکولر اور مسلم رائے دہندوں کو مطمئن کرنے یہ حربہ استعمال کیا گیا۔ غزہ ہاسپٹل کے واقعہ پر ساری دنیا مغموم ہے اسی طرح مودی نے بھی عوام کے جذبات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں اقلیتی ووٹ پر بی جے پی کی نظر ہے۔ اگر واقعی ہلاکتوں کا افسوس ہے تو وزیر اعظم کو چاہئے کہ فلسطینیوں کی امداد کا عملی طور پر ثبوت پیش کریں۔ ہندوستانی حکومت سے شکایت اس لئے بھی ہے کیونکہ آزادی کے بعد سے ملک فلسطین کا حمایتی رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی شرماتے ہوئے اور نتن یاہو کے خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اسرائیل سے ہمدردی دکھا رہے ہیں۔ افسوس تو ان عرب اور اسلامی ممالک کے رول پر ہے جو قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کا کوئی ایمانی جذبہ نہیں رکھتے۔ کئی برسوں سے بعض ممالک صرف ادویات، ملبوسات اور اناج کی مدد کو فلسطینیوں پر احسان تصور کررہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے دباؤ میں اسرائیل سے تعلقات استوار کرلئے گئے۔ بعض عرب ممالک میں اسرائیلی سفارتخانہ قائم کردیا گیا۔ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں پیشرفت جاری تھی کہ اچانک جنگ چھڑ گئی۔ اسے جنگ کہنا بھی تکنیکی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہوگا کیونکہ یہاں تو دو طرفہ حملے نہیں بلکہ یکطرفہ بمباری جاری ہے۔ امریکہ اور عالمی طاقتوں کی تحدیدات کے باوجود ایران وہ واحد ملک ہے جس نے فلسطین کی کھل کر تائید کرتے ہوئے حمیت اسلامی کا ثبوت دیا ہے۔ فلسطینیوں پر مظالم کے سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں کا ردعمل بھی کافی کمزور رہا۔ دراصل مسلمانوں کی بیت المقدس سے جذباتی وابستگی کمزور پڑچکی ہے۔ مسلم قیادتوں اور خاص طور پر مذہبی قیادتوں نے مسلمانوں کو قبلہ اول کے تحفظ کے جذبہ سے عاری کردیا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب فلسطین پر اسرائیل کی معمولی کارروائی پر سارے مسلمان احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آتے، اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ برصغیر ہندوستان و پاکستان اور عرب ممالک سے زیادہ مغربی ممالک میں لاکھوں عوام فلسطینیوں کی تائید میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی جارہی ہے لیکن اسرائیلی مصنوعات اور خاص طور پر اسرائیلی کمپنیوں کی غذائیں مسلمانوں میں کافی مقبول ہوچکی ہیں۔ میک ڈونالڈ کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی لیکن اس معاملہ میں کہنا پڑے گا کہ غریب مسلمانوں کو پتہ نہیں کہ میک ڈونالڈ کیا ہے اور جن دولت مندوں کو میک ڈونالڈ کا پتہ ہے ان کو بیت المقدس کی اہمیت کا علم نہیں۔
ملک کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کی مہم عروج پر ہے اور پہلی مرتبہ نریندر مودی اور بی جے پی دفاعی موقف میں نظر آرہے ہیں۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں کانگریس کی انتخابی مہم کی کمان راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے سنبھال رکھی ہے۔ بی جے پی کے لئے مدھیہ پردیش کی حکومت کو بچانا آسان نہیں ہوگا۔ گزشتہ 10 برسوں میں مودی حکومت کے عوام دشمن فیصلوں کا اثر پانچ ریاستوں کی انتخابی مہم پر دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی مبصرین نے لوک سبھا انتخابات سے قبل پانچ ریاستوں کے چناؤ کو ’’منی جنرل الیکشن‘‘ کا نام دیا ہے۔ بی جے پی اگر اسمبلی چناؤ میں کمزور مظاہرہ کرتی ہے تو یقینی طور پر لوک سبھا نتائج پر بھی اثر پڑے گا۔ کانگریس کی زیر قیادت اپوزیشن اتحاد INDIA نے ملک بھر میں پہلے ہی اپنی برتری ثابت کردی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی اور امیت شاہ کے تیور اس قدر جارحانہ نہیں ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے۔ دراصل مودی میجک اپنا اثر کھونے لگا ہے۔ بی جے پی کے داخلی اختلافات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امیت شاہ اور جے پی نڈا انتخابی مہم میں زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ مودی سے ناراض قائدین کو نتائج کا انتظار ہے تاکہ شکست کی صورت میں وزیر اعظم کو ذمہ دار قرار دیا جاسکے۔ پانچ ریاستوں کے چناؤ دراصل اپوزیشن اتحاد INDIA کی عوامی مقبولیت کا امتحان رہے گا۔ کانگریس کی کامیابی لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کے امکانات کو مستحکم کرسکتی ہے۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے پانچ ریاستوں میں اپنی مہم کے ذریعہ بی جے پی کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ تقریباً 10 سال کے وقفہ کے بعد کانگریس پارٹی کو حقیقی معنوں میں اسٹار کیمپینرس حاصل ہوئے جو بی جے پی کی تیسری مرتبہ کامیابی میں اہم رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یو پی اے کے 10 سالہ دور حکومت کے بعد نریندر مودی کے جادو کا اثر توڑنے کے لئے کانگریس میں کرشماتی شخصیتیں نہیں تھیں۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی مہم سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ صرف گاندھی خاندان ہی فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں جن عناصر نے انگریزوں کے لئے مجاہدین آزادی کی جاسوسی کی تھی آج ان کے جانشین خود کو حقیقی معنوں میں دیش بھکت ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے تلنگانہ میں کانگریس پارٹی کو کامیابی کے قریب پہنچا دیا ہے اور تمام سروے رپورٹس اس بات کا اشارہ کررہے ہیں کہ 10 سال کے وقفہ کے بعد نئی ریاست تلنگانہ کے رائے دہندے تبدیلی کے حق میں فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ابتداء میں صورتحال یہ تھی کہ انتخابی مقابلہ بی آر ایس، بی جے پی اور کانگریس کے درمیان دکھائی دے رہا تھا۔ کانگریس تیسرے نمبر پر تھی لیکن راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی مہم نے کانگریس کو بی آر ایس کے مقابل کھڑا کردیا۔ ان دونوں کی مہم کا اثر ہے کہ بی جے پی نے الیکشن سے قبل ہی اپنی شکست کو تسلیم کرلیا ہے اور اصل مقابلہ برسر اقتدار بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان رہے گا۔ چار اہم ریاستوں میں اگر کانگریس پارٹی برسر اقتدار آتی ہے تو کامیابی کا سہرا راہول گاندھی پرینکا کے سر جائے گا۔ فلسطین کی صورتحال پر کیفی اعظمی کی نظم کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
اے صباء لوٹ کے کس شہر سے تو آتی ہے
تیرے ہر جھونکے سے بارود کی بو آتی ہے