تیل کی سیاست ، طالبان اور اِسلاموفوبیا کے ہندوستان پر اثرات

   

رام پنیانی
افغانستان سے امریکی فوج کے تخلیہ کا نتیجہ طالبان کے اقتدار پر واپسی کی شکل میں نکلا جس کے بعد افغانستان سے متعلق جس طرح کی منظرکشی کی گئی یا حالات پیدا کئے گئے، وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ اقلیتیں وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ خود مسلمان بھی افغانستان کو خیرباد کہتے ہوئے یوروپی ممالک کیلئے رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ اس طرح کی اطلاعات یقینا صدمہ انگیز ہیں۔ ان تمام واقعات نے افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں پر عالمی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہیں۔ ماضی میں طالبان کا جو ریکارڈ رہا ہے، وہ سب لوگوں کی یادوں میں آج بھی زندہ ہے۔ مثال کے طور پر خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنا، مردوں کیلئے ضابطہ اخلاق پر زور دینا، شریعت سے متعلق اپنا نقطہ نظر لوگوں پر نافذ کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ دنیا نے یہ فراموش نہیں کیا ہے کہ طالبان نے اپنے اقتدار کی پہلی میعاد میں بامیان میں واقع گوتم بدھ کے مجسمہ کو منہدم کردیا تھا۔ طالبان کے یہ تمام اقدامات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ طالبان کیا چاہتے ہیں اور ان کا موقف اور ان کے نظریات کیا ہیں، لیکن بعض لوگوں کو امید ہے کہ اس مرتبہ طالبان تبدیل ہوچکے ہیں۔ لیکن حالیہ عرصہ کے دوران طالبان نے جو ابتدائی قدم اٹھائے ہیں، اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ طالبان کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ مسلم قائدین نے طالبان حکمرانی کا خیرمقدم کیا لیکن ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت نے نہ صرف طالبان حکمرانی کے بارے میں خدشات ظاہر کئے بلکہ ان کی نئی حکومت کی نئی پالیسیوں کی شدید مخالفت کی اور مخالفت کررہی ہے۔ مثال کے طور پر نصیرالدین شاہ اور جاوید اختر نے فوری طور پر طالبان کی بنیاد پرستانہ سیاست کی مذمت کی۔ جبکہ طالبان افغانستان میں جو کچھ بھی کررہے ہیں، ہندوستانی میڈیا کا ایک گوشہ جس کی نشاندہی ’’گودی میڈیا‘‘ کی حیثیت سے کی گئی ہے اور حکمرانوں کے اشاروں پر کام کرتا ہے اور ان لوگوں پر حملہ کرتا ہے جو حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ اُسے طالبان کے اقتدار پر آنے کے ساتھ ہی انہیں وقت گذاری کا ایک اچھا مشغلہ ہاتھ آگیا اور گودی میڈیا نے تمام اہم مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے زیادہ تر وقت طالبان حکومت کی خوفناکیوں کو پیش کرتے ہوئے گزارنا شروع کردیا۔
اگرچہ بعض باتیں ٹھیک لگتی ہیں لیکن زیادہ تر باتوں میں کوئی سچائی نہیں ہوتی۔ گودی میڈیا نے طالبان کے بارے میں اس قدر چیخ و پکار شروع کردی جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ آج ہندوستانی صرف ایک مسئلہ، ایک بحران اور ایک مشکل کا سامنا کررہے ہیں اور وہ مسئلہ طالبان ہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک میں بے شمار بڑے مسائل ہیں جن کا عوام سامنے کررہے ہیں، وہ بڑھتی بیروزگاری، کسان دشمن زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج، دلتوں اور خواتین کے خلاف بڑھتے مظالم، مذہبی اقلیتوں پر ظلم و جبر جیسے مسئلے ہیں۔ ان تمام مسائل ہندوستانیوں کیلئے پریشانیوں کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اقلیتوں پر حملے کئے جارہے ہیں، ان کے حقوق دبائے جارہے ہیں، اس کے باوجود خاطیوں کو کیفرکردار تک پہنچانے سے گریز کیا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گودی میڈیا اپنے پروگراموں میں خود مذہبی اقلیتوں کو خاطیوں کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نتیجہ میں پہلے سے موجود ’’مسلمانوں سے نفرت کرو‘‘ جذبات و احساسات مستحکم ہوتے جارہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فرقہ پرست تنظیموں کی زیرقیادت مختلف میکانزم کو استعمال کیا جارہا ہے اور فرقہ پرست تنظیم کی ذیلی شاخیں اس معاملے میں اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے کر اس میں شدت پیدا کررہی ہیں۔ گودی میڈیا، طالبان کے بارے میں ایسا تاثر دے رہا ہے اور ایسی زبان استعمال کررہا ہے، جیسے کہ طالبان دنیا بھر کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوں اور وہ اسلامی اقدار کے ٹھیکدار ہوں۔ گودی میڈیا ، طالبان کے بارے میں چیخ و پکار کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر پیدا کررہا ہے اور انہیں مزید الگ تھلگ کرنے اور انہیں حاشیہ پر لانے کی کوشش کررہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا طالبان کسی بھی طرح عالمی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں؟ آیا وہ قرآن اور اسلام سے اخذ کردہ اقدار کی کسی بھی طرح نمائندگی کرتے ہیں۔ طاقتور میڈیا کا یہ حصہ طالبان کی ابتداء یا اس کے منظر عام پر آنے کے بارے میں کوئی تشویش نہیں رکھتا بلکہ اس کے پیچھے کارفرما سیاست کو کھرچتا ہے۔ یہ میڈیا ایسا ہے جو اس بات کیلئے اپنا محاسبہ کرنے کی فکر بھی نہیں کرتا کہ وہ طالبان کے ذریعہ یا طالبان کے بہانے مسلمانوں کی شبیہ متاثر کررہا ہے حالانکہ اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ دنیا میں مسلم آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک انڈونیشیا یا دوسرے مسلم ملکوں میں طالبان جیسے گروپ نہیں پائے جاتے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں کہیں بنیاد پرستی پیدا ہوئی یا بڑھی ہے تو وہ ایسے علاقہ ہے جو تیل سے مالامال ہیں۔ پچھلے چند دہوں سے امریکہ اور اس کے کٹر حلیفوں کا تیل کے وسائل پر کنٹرول بڑھتا جارہا ہے۔ اسی طرح تیل کی دنیا کے مختلف علاقوں میں واقع مارکٹوں میں بھی امریکہ اپنی اجارہ داری قائم کررہا ہے، جیسے مغربی ایشیا میں یہ علاقہ تیل کے وسائل سے مالامال ہے اور اسی وجہ سے مختلف مسائل کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے مسلم نوجوانوں کو اسلام کے ایک نئے ورژن کی تربیت دی اور اس کے لئے امریکہ نے خصوصی منصوبہ بنایا۔ سرد جنگ کے دور میں سامراجیوں کے عزائم کو کمیونزم کے خلاف آزاد دنیا کے نام پر تقویت پہنچائی گئی کیونکہ سوویت یونین کئی قومی آزادی کی تحریکوں کی تائید و حمایت کررہا تھا اور سوویت یونین اور چین کی آزادی کے خواہاں ملکوں کو تائید امریکہ کو ہرگز پسند نہیں تھی چنانچہ امریکہ نے اس کے خلاف بیرونی ممالک میں حملوں کے ذریعہ اپنی پالیسیوں اور ایجنڈہ کا آغاز کیا۔ ویٹنام کی جنگ اس کی بہترین مثال ہے۔ امریکہ کو اس وقت ایک بڑا موقع مل گیا جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا۔ وہ روس کی ایک بھیانک غلطی تھی جس کے ساتھ ہی امریکہ نے علاقہ کے بنیاد پرست مسلم گروپوں کی تائید و حمایت میں شدت پیدا کردی جبکہ سعودی عرب نے بھی مسلم نوجوانوں کو تربیت کی فراہمی میں مدد کی۔ پہلے پہل امریکہ کا ہی منصوبہ تھا کہ پاکستان کے چند مدرسوں میں مجاہدین، طالبان اور القاعدہ کو تیار کیا جائے، اس کا نصاب واشنگٹن میں تیار کیا گیا، مالیہ امریکہ نے ہی فراہم کیا اور مسلم نوجوانوں کو ان مدرسوں میں پہنچانے کیلئے پرکشش ترغیبات سے رِجھایا گیا اور یہ سب کام سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے قریبی تعاون و اشتراک سے کیا گیا۔ اس طرح مسلم نوجوانوں کی ذہن سازی کی گئی۔ ایک طرف انہیں کٹر مذہبی بنایا گیا اور دوسری طرف ان کے ہاتھوں میں عصری ہتھیار تھما دیئے گئے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ افغان فورسیس کے ایک حصے کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے روسی فوج کو شکست دیں۔ کسی کو بھی ان عناصر کا دورۂ وائٹ ہاؤز یاد ہوگا جب رونالڈ ریگن نے 1985ء میں اپنے صدارتی دفتر میں ان کی میزبانی کرتے ہوئے کہا کہ یہ شریف النفس لوگ امریکہ کے بانیوں کی طرح ہیں۔ اس طرح سی آئی اے نے دنیا کے خطرناک دہشت گردوں کی تخلیق کی۔ اس طویل تاریخ کو مختصر کرتے ہوئے امریکہ کی سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ ہلاری کلنٹن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ نے ہی طالبان اور القاعدہ کو مالیہ فراہم کیا۔ آج عالمی سطح پر مسلمانوں کا سروے کیا جائے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طالبان ، القاعدہ اینڈ کمپنی جیسی تنظیموں کی جانب سے اختیار کی جانے والی جارحانہ پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ 2016ء میں ’’مسلمان کیا چاہتے ہیں‘‘ نامی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی اس میں برطانوی مسلمانوں کے بارے میں بہت غیرمعمولی انداز میں تحقیق کی گئی تھی۔ اس سروے میں یہ پایا گیا کہ 10 میں سے 9 برطانوی مسلمانوں نے بڑی سختی کے ساتھ دہشت گردی کو مسترد کیا۔ اگر دیکھا جائے تو مغربی ایشیا، امریکی سامراج کی آئیل اور دولت سے متعلق امریکی بھوک کا شکار بنا ہوا ہے۔ اس قسم کی دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ دُور مت جایئے! خود پاکستان کا حال دیکھئے جہاں اس دہشت گردی کے نتیجہ میں 70 ہزار لوگوں کی زندگیاں ضائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی ایسے ہی حملے میں اپنی زندگی سے محروم ہوئیں اور سی آئی اے کی تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردی نے ایک عفریت کی شکل اختیار کرلی۔ اپنے گناہوں اور جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے امریکی میڈیا نے 9/11 ٹوئن ٹاور دہشت گردانہ حملے کے بعد اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح گھڑ لی اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی میڈیا نے اسے بناء کسی سوال کے اپنا لیا۔ ہندوستان میں پہلے ہی سے مسلمانوں کے خلاف منفی لیبل چسپاں کردیا گیا تھا حالانکہ یہ تباہ کن رجحان امریکی پالیسیوں کی پیداوار تھی اور اس نے ہندوستان میں مسلم کمیونٹی سے دشمنی میں مزید اضافہ کردیا۔ ایک بعد ضرور کہی جاسکتی ہے کہ تخریبی سیاست کے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح کھیلنے کے بجائے گودی میڈیا ملک کو درپیش حقیقی مسائل پر اپنی توانائیاں صرف کرتا تو کتنا بہتر ہوتا۔