جامعات میں اُردو صورتِ حال اور مستقبل کے امکانات

   

…صفدر امام قادری…
جدید دنیا کی مشہور تعلیمی اصطلاح یونی ورسٹی کے ڈکشنریوں میں یہ معنی لکھے ہوئے ملیں گے کہ وہ جگہ یا ادارہ جہاں اعلیٰ تعلیم کی سہولت حاصل ہو اور اس کی ڈگریاں تفویض کی جاتی ہوں۔ اسی کے ترجمہ کے طور پر جامعہ دارالعلوم یا وشوودیالیہ جیسی اصطلاحیں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ ماہرین تعلیم اس امر کا اضافہ کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کا یہ آخری ادارہ ہے جہاں کے بعد رسمی تعلیم و تدریس کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس انجام یا رسمی اختتام پر بڑے اداروں میں جلسۂ تقسیم اسناد کا اہتمام اور اس موقعے سے کسی بڑے ماہر تعلیم یا دانشور کا خطاب بھی اس لیے رواج میں رہا کیوں کہ اس روز ڈگری لیتے ہوئے اس کامیاب طالب علم کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ اس نے اپنے علم کی جو پونجی اکٹھی کی ہے، اسی کی بنیاد پر اسے آئندہ زندگی کے سارے نازک مراحل میں بہ سلامت گزر جانا ہے۔ یونیورسٹی لفظ کا ایک دوسرا مفہوم میکسم گورکی کے یہاں ملتا ہے جب وہ اپنی خودنوشت کے دوسرے حصے کو ’’میری یونی ورسٹیاں‘‘ کہتا ہے۔ اس جلد میں اس کی زندگی کا وہ دور شامل ہوا ہے جب وہ مشکل حالات کے شکنجے میں پھنسا اور دال روٹی پہ بن آئی تھی۔ ہوٹل میں اسے ویٹر کا کام ملا تھا۔ اسی سے زندگی کی گاڑی چلتی تھی۔ گورکی کیلئے وہ خوب دن تھے جب اس وقت کے روس کے انقلاب پسند نوجوان اور دانش وران ہوٹل میں بیٹھ کر استحصال سے عاری ایک نئے ملک کا خواب دیکھتے تھے۔ گورکی ان کی باتوں کو غور سے سنتا تھا اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ انھی باتوںسے ہوٹل کے ایک ویٹر کی زندگی بدلی اور وہ نوجوان انقلاب پسندوں کے حلقے میں شامل ہوگیا۔ پھر لینن کا دوست اور دنیا کا بڑا لکھنے والا اور نوبل انعام سے سرفراز میکسم گورکی بنا۔ اس زندگی کو گورکی نے اپنی یونی ورسٹی سے تعبیر کیا کیوں کہ یہاں اسے جو علم حاصل ہوا، اس کی بنیاد پر اس نے اپنی نئی زندگی کا خاکہ تیار کیا اور اسی سے اسے دنیا میں کامرانی حاصل ہوئی۔
برِ صغیر کی تعلیمی تاریخ پر غور کریں تو ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی یونی ورسٹیوں کے بہت سارے شعبہ ہاے اُردو ایسے ہیں جنھوں نے سو برس سے زیادہ میعاد پوری کرلی۔ بہت سارے شعبہ 75 اور 50 برس مکمل کرچکے ہیں۔ آزادی کے بعد کے کالج اور یونی ورسٹیوں میں ہزاروں کی تعداد میں شعبۂ اُردو قائم ہوئے۔ بہت ساری جگہوں پر پہلے سے قائم شعبوں کو سیاسی تنگ نظری میں بند کیا گیا اور کہیں انھیں محدود کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر ان مشکلات میں بھی اردو کے شعبے نہ صرف یہ کہ زندہ ہیں بلکہ اپنی بعض معقول سرگرمیوں کی وجہ سے وہ اکثر و بیش تر زندگی بہ داماں ہونے کا ثبوت فراہم کرتے رہتے ہیں۔ تینوں ملکوں اور یورپ امریکہ یا دوسرے ممالک کے طلبہ اور اساتذہ کی ایک سیشن میں تعداد کا اندازہ کیا جائے تو یہ لازمی طور پر لاکھوں میں ہوگی۔ ان میں اچھی خاصی تعداد بڑی چھوٹی ملازمتوں میں جارہی ہے اور ایک طبقہ اعلیٰ تعلیم کو مستحکم کرنے میں لگا ہواہے۔ ظاہری طور پر یہ ادارہ پھل پھول رہا ہے اور اپنی ہم عصر زبانوں سے مطابقت بٹھا کر اپنے خواب کو صحیح شکل میں مرتب کررہا ہے۔

گذشتہ نصف صدی میں شعبۂ اُردو کے اساتذہ اور ان کے فارغین کی کارکردگی میں واضح طور پر ہمہ جہت گراوٹ نظر آتی ہے۔ جو نااہل اساتذہ تھے، وہ پڑھا نہیں سکتے تھے۔ جو پڑھا سکتے تھے، انھوںنے دوسری ذمہ داریوں کو اولیت دی۔ جن کی کارگزار ملازمت تھی، ان پر شعبے کے چلانے کی ذمہ داری بڑھی۔ اساتذہ جیسے جیسے مستقل اور معتبر ہوتے گئے، انھوںنے کلاس روم تدریس سے خود کو بہ تدریج الگ کرلینے میں اپنی بڑائی سمجھی۔ چند یونیورسٹیوں اورکچھ فرض شناس اساتذہ کو علیحدہ کرلیں تو پٹنہ سے لے کر دلی اور دِلی سے لے کر ممبئی تک آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ کمزور اساتذہ نے طلبا کو نہیں پڑھایا تو بے شک کوئی بجلی نہیں گری۔ کوئی خاص نقصان بھی نہیں ہوا، مگر جو باصلاحیت تھے اور علم و فن کے باریک نکتے اپنے شاگردوں کو بتا اور سکھا سکتے تھے، ان کی گریز خوئی نے ہماری نئی نسل کو علمی اعتبار سے بے حد کمزور اور بے مایہ بنادیا۔

آج شعبۂ ہائے اُردو پر کئی طرح کے حملے ہو رہے ہیں۔ ملک کے گوشے گوشے سے ایسی خبریں آتی ہیں کہ اساتذہ کے انتخابات اور تقرری کے مرحلے میں ان کے بزرگ اساتذہ نے ذاتی اور مالی منفعت ، اقربا پروری اور بہترین صلاحیتوں کی اَن دیکھی کی۔ سب الزامات یا چہ می گوئیاں درست نہیں ہوسکتیں مگر بغیر آگ کے دھواں بھی کیسے ہوگا؟ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن سے لے کر متعدد تقرراتی ادارے اور یونی ورسٹیاں روز نئے اور سخت قوانین بنانے کی کوششیں کرتی ہیں مگر بعض بزرگ اساتذہ اُردو کی بے راہ روی اپنے لیے راستہ بنالیتی ہے۔ کہیں ماہرین کے نام اور کس کانام انتخاب میں آئے گا، اس کی فہرست اخباروں میں شائع ہوجاتی ہے اور کہیں بازاروں اور ہوٹلوں میں برسرعام ایسے لوگ جائز اور ناجائز امور کی انجام دہی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سارے گورکھ دھندے سے نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ اہل اور باصلاحیت افراد کو درکنار کرو اور کم تر درجے کے لوگوں کو داخل شعبۂ اُردو کرو۔ اس کام میں اکثر بزرگ اور بزرگ تر اساتذہ ہی ملوث پائے جاتے ہیں۔ ہندستان کے کسی بھی شعبۂ اُردو کے پاس گلیمر والے اساتذہ اب کہاں ہیں جنھیں دوسرے مضمون کے طلبا اور پورا شہر اشارے سے دوسروں کو دکھائے اور بتائے؟ روٹیشن نے تویہ بھی دن دکھایا کہ اب تو بڑی بڑی یونی ورسٹیوں کے صدور ایسے ہیں جن کے نام اور ان کے علمی کام سے ان کا شعبہ بھی واقف نہیں ہے۔ یہ بات دور دراز کے علاقوں تک محدود نہیں بلکہ مرکزی یونیورسٹیاں اور پرانے شعبہ ہاے اردو بھی اس کی زد میں ہیں۔ علیگڑھ ، پٹنہ اور دلی ، سب جگہوں پر ایسے صدور اور ایسے اساتذہ وقتاً فوقتاً پائے ہی جاتے ہیں، اس لیے شعبہ ہاے اُردو کے لیے یہ مشکل گھڑی ہے کہ ہمارا تدریسی معیار اور وقار دائوں پر ہے اور ہم صرف ایک میکانیکی عمل اور جسمانی کسرت کیے جارہے ہیں۔ حصولیابی کے نام پر اور قومی یا بین الاقوامی معیار پر ہم اتھاہ گہرائی میں پہنچ چکے ہیں جہاں سے نکلنا آسان نہیں ہے اور آج جیسے ہیں اس میں تو یہ ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔نصابِ تعلیم اگر ازکار رفتہ ہے تو اس کی بنیاد پر ہم بھلا کیسے چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ دس بیس اور تیس سال پرانا نصاب ہمیں اس طور پر سہولیات بہم پہنچاتا ہے کہ آزمائے ہوئے اور تیار شدہ نصابی مواد کی نسل در نسل منتقلی کرنے کی ہماری بے شرمی جاری ہے مگر استاد مستعدی سے اپنے نصاب کو ایک مختصر میعاد گزرنے کے بعد بالارادہ بدلنے کی کوشش کرے اور نئے موضوعات یا متون کو شامل کرنے کی سعی کی جائے تو طلبا کے دائرۂ کار اور علمی معیار میں واضح تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔

آج جس یونیورسٹی میں جائیے، ریسرچ اسکالرس کی ایک بھری پڑی جماعت نظر آتی ہے۔ ان میں سے اچھی خاصی تعداد یوجی سی اور دوسرے ذرائع سے فیلو شپ حاصل کرنے والوں کی ہے۔ اکثر اس میں قومی سطح کے امتحانات پاس کرکے کامیاب افراد ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مضمون نویسی سے لے کر کتاب نویسی میں بھی منہمک ملتے ہیں۔ بہت ساری جگہوں پر تو ایسے طلبا میں بعض رسائل کے مدیر اور ادارتی ٹیم کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔ ان میں سے 90% طالب علم کا تخلیقی ادب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ سب کے سب نقاد اور محقق بننے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے اساتذہ کی بھی بڑی تعداد تنقید و تحقیق کی ماری ہوئی ہے جن میں سے اکثر نے اپنی زندگی میں ایک عدد مقالۂ امتحانیہ لکھا اور باقی زندگی خوردہ گیری یا استادی کرنے میں گزر گئی۔ایسی حالت میں کوئی ریسرچ اسکالر کیوں نہ اس طرف بڑھے مگر ہماری یونی ورسٹیوںمیں شاعر، افسانہ نگار اور ناول نگار نہیں پیدا ہوںگے تو کل کیا ہوگا؟جب سارے پڑھنے والے نقاد اور محقق ہی بننے کا گورکھ دھندا پال لیں تو اس زبان کے مرنے میں کوئی دو راے نہیںہو سکتی۔
یونیورسٹی اساتذہ اپنے شہر اور حلقے کے تخلیق کاروں سے بھی اپنے شعبے کو اور ان کے طلبا کو دور رکھتے ہیں۔ ایک یونی ورسٹی اور کالج کے بچے دوسری یونی ورسٹی کے اپنے ہی شعبے کے بچوں یا اساتذہ سے دور رہتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں یہ دیواریں اساتذہ کی کھینچی ہوئی ہیں۔ مگر ان دیواروں کو طلبا کو توڑنا ہوگا۔ جب اپنے مخصوص دائروں سے طلبا باہر نکلیں گے تو انھیں پتا چلے گا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔٭