جبری تبدیلی مذہب غیراسلامی، عبادتگاہوں کے تحفظ کا عہد

   

قومی یوم اقلیتیں تقریر سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کا خطاب

اسلام آباد ۔29 مئی (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم پاکستان عمران خان نے آج جبری تبدیلی مذہب کو ’’غیراسلامی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اسلام کی تاریخ میں کسی بھی ایسے واقعہ کی مثال نہیں ملتی جس سے دوسروں کا مذہب زبردستی تبدیل کروایا گیا ہو۔ وہ ذرائع ابلاغ کی خبروں پر ردعمل ظاہر کررہے تھے۔ وہ قومی اقلیتیں تقریر سے ایوان صدر اسلام آباد میں خطاب کررہے تھے۔ عمران خان نے یہ بھی عہد کیا کہ وہ اقلیتوں کی پاکستان میں عبادتگاہوں کا تحفظ کرنے کا عہد کرتے ہیں اور انہیں سہولت دینگے تاکہ وہ اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی میں اکثریت کے مساوی حقوق حاصل رکھیں۔ عمران خان نے کہا کہ صدر پاکستان نے خود اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا اور ان کی عبادتگاہوں کے تحفظ کا تیقن دیا ہے۔ کثیرالاشاعت روزنامہ ڈان کی خبر کے بموجب ہمارے ہاتھوں کسی کی بھی جبری تبدیلی مذہب عمل میں نہیں آئیگی چاہے وہ غیرمسلم خواتین سے شادی کریں اور یہ شادی بندوق کی نال پر ہو یا جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی ہو۔ یہ تمام چیزیں غیراسلامی ہیں۔ اگر خدا نے اپنے پیغمبر کو اختیارات دیئے ہوتے کہ کسی کے عقیدہ کو جبراً تبدیل کروایا جائے تو ہم بھی ایسا کرسکتے تھے۔ اگر انہیں اختیارات نہیں دیئے گئے تو ہم کون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیغمبروں کا فرض صرف اللہ کے کلام کی اشاعت تھا۔ عمران خان نے پاکستان کو ایک مثالی مملکت جیسی کہ مدینہ تھی، بنانے کا تیقن دیا۔ عوام کو انکے حقوق کا تیقن دیا۔ قانون کی حکمرانی اور مثالی شہری حقوق فراہم کرنے کی سہولت دینے کا تیقن دیا۔ سرکاری زیرانتظام پاکستان ریڈیو کی خبر کے بموجب وزیراعظم نے کہا کہ وہ کرتارپور راہداری سکھ برادری کیلئے بابا گرونانک کی 550 ویں یوم پیدائش تقریب کے موقع پر کھول دینے کے پابند ہیں۔ ان کا یہ بیان کئی ماہ پہلے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے بعد منظرعام پر آیا ہے جو اپریل میں پیش کی گئی تھی اور اس میں جبری تبدیلی مذہب کی اطلاعات پر تشویش ظاہرکی گئی تھی۔ ہندو اور عیسائی لڑکیوں سے شادیوں کی اطلاعات پر بھی کمیشن کو تشویش تھی جس نے کہا تھا کہ تقریباً ایک ہزار ایسے واقعات کی جنوبی صوبہ سندھ سے گذشتہ سال کے دوران حاصل ہوئی ہیں۔ مارچ میں ہندو کمسن بہنیں 13 سالہ روینا اور 15 سالہ رینا مبینہ طور پر بارسوخ افراد کے ایک گروپ کی جانب سے ان کے مکان واقع گھوٹکی (سندھ) سے اغواء کرلی گئی تھیں اور ایک عالم دین نے مبینہ طور پر ان کی شادی انجام دی تھی جسکی وجہ سے ملک گیر سطح پر برہمی پھیل گئی تھی۔ جاریہ ماہ کے اوائل میں پاکستان کی سندھ اسمبلی میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جبری تبدیلی مذہب اور ہندو بچیوں کے اغواء کی وارداتیں بند ہوجانا چاہئے اور خاطیوں کیخلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔ یہ قرارداد عظیم جمہوری اتحاد کے قانون داں نندکمار گوکلانی نے پیش کی تھی اور اسکی تائید پاکستان پیپلز پارٹی مہاجرین قومی تحریک پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے کی گئی تھی۔ عمران خان نے کہا کہ ہندو پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ سرکاری تخمینوں کے بموجب پاکستان میں 75 لاکھ ہندو مقیم ہیں تاحال ہندو برادری کے بموجب 90 لاکھ سے زیادہ ہندو پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ پاکستان کی اکثریت کے بموجب صوبہ سندھ (پاکستان) کی ہندو آبادی کا تمدن، روایات اور زبانیں اپنے ساتھی مسلم شہریوں کی طرح ہیں۔