جرائم معاملات میں بھی دو نظری

   

ہندوستانی سماج میں جرائم کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے ۔ لوگ معمولی سی باتوں پر کسی کی جان لینا آسان سمجھ بیٹھے ہیں۔ قتل و غارت گری کے معاملات بڑھتے جا رہے ہیں۔ سماج میں اس ناسور کو روکنے کیلئے کوئی موثر اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ موثر اقدامات تو دور کی بات ہے ہمارے سماج اور میڈیا کا یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے کہ جرائم کے معاملات میں بھی تعصب اور دو نظری سے کام لیا جا رہا ہے ۔ چند ماہ قبل جب دہلی میں شردھا والکر کا اس کے عاشق آفتاب پونا والا نے قتل کردیا تھا تو سارے ملک میں اس مسئلہ کو تعصب کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ ہر گوشے سے اسے ہندو ۔ مسلم نظریہ سے پیش کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ۔ ملک میں نفرت پھیلانے میں مہارت رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ جدوجہد کرنے والے ٹی وی چیانلس نے بھی اس مسئلہ پر غیر معمولی مباحث کا اہتمام کیا ۔ اسے ایک الگ ہی رنگ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ کچھ ناسمجھ افراد کی جانب سے تو اس کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا ۔ احتجاج قتل کے خلاف کیا جاتا تو یہ واجبی ہوتا تاہم یہ احتجاج بھی فرقہ وارانہ نظریہ سے کیا گیا جو افسوسناک تھا ۔ ٹی وی چیانلس پر ملک یا ملک کے نوجوانوں کو درپیش اہمیت کے حامل مسائل پر کوئی مباحث نہیں کروائے جاتے اور نہ ہی ان کی تشہیر کرتے ہوئے حکومت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ شردھا والکر جیسے معاملہ میں میڈیا خود اپنا اور ملک کے عوام کا وقت ضائع کرنا ضروری سمجھ رہا تھا ۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب قانون اپناکام کر رہا تھا ۔ مجرم کے خلاف کارروائی ہو رہی تھی ۔ اسے گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ تحقیقات کو منطقی انجام تک پہونچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی تھی ۔ اس کے باوجود میڈیا ٹرائیل چلانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کا مقصد صرف فرقہ وارانہ منافرت کو شدت کے ساتھ پھیلانے کے سواء کچھ اور نہیں تھا ۔ یہ محض اس لئے کیا گیا کیونکہ ملزم کا نام آفتاب پونا والا تھا ۔ حالانکہ نام آفتاب ضرور ہے لیکن یہ وثوق سے کہا نہیں جاسکتا کہ وہ مسلم ہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ پارسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے ۔
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی مجرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ دنیا کے ہر مذہب میں قانون شکنی کرنے والے افراد موجود ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مفاد کی خاطر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہیں ان کے مذہب سے جوڑ کر نہیں بلکہ ان کے جرم سے جوڑ کر ایک ملزم یا مجرم کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کسی ایک شخص کے جرم کی وجہ سے اس کے مذہب کو بدنام یا رسواء کرنے کی کوششیں انتہائی افسوسناک ہوتی ہیں۔ اگر یہی روایت بن گئی تو پھر ملک میں جرائم کا تناظر بھی بدل جائے گا ۔ آفتاب پونا والا کے معاملے میں تو کئی گوشوں نے اپنی اپنی جانب سے سرگرمی دکھائی ۔ ملزم کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے بعد سے ملک کے کئی شہروں اور کئی ریاستوں میں اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ میں ایک نوجوان ساحل گہلوٹ نے اپنی معشوقہ نکی یادو کو نہ صرف دھوکہ دیا ‘ اس سے تعلقات رکھتے ہوئے دوسری لڑکی سے رشتہ ازدواج میں بندھا اور اپنی معشوقہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس کی نعش کو چھپانے کی سازش رچی ۔ ایک طرف وہ شادی کی تقاریب میںبھی شریک ہو رہاتھا اور رات کے اندھیرے میں وہ جرم کا ارتکاب بھی کر رہا تھا ۔ اس تعلق سے نہ کسی سماج سدھار گوشے کو کوئی تشویش لاحق ہوئی ہے اور نہ ہی میڈیا نے اس پر مباحث کروانا ضروری سمجھا ہے ۔ یہ سارا کچھ ایک مخصوص سوچ اور بیمار ذہنیت کا ثبوت ہے جو ہمارے معاشرہ کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔
مسئلہ صرف شردھا والکر یا نکی یادو کا نہیں ہے ۔ مسئلہ ہے نوجوان خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کا ۔ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جرم چاہے جس کسی نے کیا ہو اور چاہے جس کسی کے ساتھ کیا ہو وہ قابل مذمت ہے اور مجرم کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی ہونی چاہئے اور اسے سزائیں دی جانی چاہئیں۔ یہ کام ملک کی عدلیہ کا ہے اور عدالتیں بخوبی یہ کام کر بھی رہی ہیں۔ میڈیا اور دوسرے گوشوں کو اس تعلق سے اپنے مفادات کی تکمیل یا اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے سے گریز کرنا چاہئے ورنہ انصاف کے تقاضوں کی تکمیل نہیں ہوسکے گی ۔