جملوں کا عروج ‘ مسائل نظر انداز

   

بی جے پی انتخابات کے موسم میں ہمیشہ ہی عوام سے ہتھیلی میں جنت دکھانے والے وعدے کرتے ہوئے بعد میں انہیںمحض انتخابی جملہ قرار دینے والی پارٹی رہی ہے ۔ تاہم اس بار جو انتخابات ہو رہے ہیں ان میںجملے بازیاں زیادہ ہونے لگی ہیںاور عوام کو درپیش مسائل کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ اب وزیر اعظم سے لے کر ہر لیڈر تک عوام سے جملہ بازیوں میں بات کرنے میں مصروف ہے ۔ جملوں سے کام نہ چلے تو پھر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اپنی اصل ذہنیت کو آشکار کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ۔ وزیر اعظم اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کودر انداز قرار دینے تک سے گریز نہیں کر رہے ہیں حالانکہ بعد میں انہیں حج کوٹہ میں اضافہ کا بھی تذکرہ کرنا پڑ رہا ہے لیکن انتخابات کے دوران جب کبھی سیاسی قائدین عوام سے رجوع ہوتے ہیں تو انہیں عوامی مسائل پر بات کرنی ہوتی ہے ۔ اب انتخابی عمل کو جملوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے ۔ جس طرح ملک کے وزیر داخلہ نے ہر کھاتے میں پندرہ لاکھ روپئے جمع کروانے کے وعدے کو انتخابی جملہ قرار دیدیا تھا اسی طرح اس بار اب کی بار 400 پار کا نعرہ دیا گیا تھا ۔ اسے بھی ایک جملہ قرار دیتے ہوئے اب خود بی جے پی اور اس کے قائدین فراموش کر رہے ہیں ۔ تاہم اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ اب ساری انتخابی مہم کو ہی جملوں کی نذر کیا جا رہا ہے ۔ کہیں منگل سوتر چھیننے کی بات ہو رہی ہے تو کہیں ایک انشورنس کمپنی کے نعرہ ’’ زندگی کے ساتھ بھی ۔ زندگی کے بعد بھی ‘‘ کا حوالہ دیا جا رہا ہے ۔ یہ در اصل عوام کو پرکشش جملوں میں الجھاتے ہوئے بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے ۔ ملک میں بیروزگاری حد سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ نوجوان تلاش روزگار میں دھکے کھا رہے ہیں۔ کہیں انہیںڈھنگ کی ملازمت دستیاب نہیں ہے ۔ اچھی خاصی تعلیم اور ڈگری رکھنے کے باوجود کہیں کوئی فوڈ ڈلیوری کرنے پر مجبور ہے تو کہیں کوئی ڈرائیونگ کر رہا ہے ۔ ان نوجوانوںکو ان کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق نوکریاں دینے کی بجائے جملہ بازیوں کے ذریعہ ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی ذمہ داری ہے کہ وہ گذشتہ دس برس میں عوام کیلئے کئے گئے کاموں کا تذکرہ کریں۔ یہ بتائیں کہ سرکاری نوکریاں کتنی دی گئی ہیں۔ مہنگائی پر کتنا قابو پایا گیا ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل پر عوام کو کتنی راحت دی گئی ہے ۔ راحت دی بھی گئی ہے یا الٹا عوام کو لوٹا گیا ہے ۔ ان سب پر بات نہیں کی جا رہی ہے بلکہ کانگریس کے منشور کو مغلیہ سوچ کا حامل قرار دیا جا رہا ہے ۔ کانگریس کے انتخابی منشور میں 30 لاکھ سرکاری نوکریوں کا خلاصہ کیا گیا ہے جن پر تقررات کئے جانے ہیں۔ کانگریس نے ان تقررات کو ایک مقررہ مدت میں پر کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس پر وزیر اعظم بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ کہیں سے سابقہ واقعات و بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور عوام کی دولت کو مسلمانوں میں بانٹنے کا الزام عائد کرتے ہوئے خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مسئلہ پروزیر اعظم نے جو بیان دیا ہے وہ بی جے پی کے کسی معمولی ٹرول والا بیان ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ملک کے وزیر اعظم کو اس حد تک توڑ مروڑ سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔ کانگریس نے خواتین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسٹائفنڈ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ وزیر اعظم اس پر کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں۔ وہ یہ واضح نہیں کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت نے نوجوانوں کیلئے کیا کچھ منصوبے بنائے ہیں۔ اس کی بجائے ڈر و خوف پیدا کرنے کی سیاست کی جا رہی ہے ۔ عوام جن مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں ان پر اپنی حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے وضاحت کرنی چاہئے تھی جو نہیں کی جا رہی ہے ۔
صرف جملہ بازیوں کے ذریعہ انتخابی ریلیوں میںشریک عوام کو تفریح کا سامان فراہم کیا جا رہا ہے ۔ یہ ہندوستانی انتخابی عمل کا مضحکہ اڑانے جیسی بات ہے ۔ کوئی وارڈ یا کارپوریشن کا رکن اس طرح کی تقاریر کرتا ہے تو اس کا کچھ حد تک جواز بھی ہوسکتا ہے لیکن ملک کے وزیر اعظم کو اس طرح کی تقاریر سے گریز کرتے ہوئے اپنی حکومت کی کارکردگی پر جواب دینا چاہئے ۔ آئندہ کے منصوبوںکو پیش کرن چاہئے تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی اور بی جے پی کی نظر میں ملک کے رائے دہندے محض کھلونے ہیں جن کو جملوں سے بہلایا جا رہا ہے ۔ ملک کے رائے دہندوں کو اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ووٹ کرنا چاہئے ۔