’’ جمہوریت، آزادی اور دستور حکمرانوں کے نرغے میں‘‘

   

محمد نصیر الدین
شہریت ترمیمی قانون (CAA) کو لے کر سارے ملک میں بے چینی، غم و غصہ اور خوف و دہشت میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ ملک بھر میں اس سیاہ قانون کے خلاف مسلمان ہی نہیں بلکہ انصاف پسند غیر مسلم، دلت اور جہد کار احتجاج میں پیش پیش ہیں۔ جامعہ ملیہ کے طلباء و طالبات اور شاہین باغ کی خواتین نے تو ایک تاریخ رقم کرڈالی ، اور سارے ملک کو احتجاج کی راہ دکھلائی۔ چنانچہ سارے ملک میں جامعہ ملیہ اور شاہین باغ طرز کے احتجاج ہونے لگے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کو لے کر عوام کے اندر ناراضگی اور غم و غصہ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور مختلف ریاستوں میں لاکھوں عوام مرد و خواتین ، طلباء و طالبات اور معصوم بچے بھی سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور حکومت تک اپنے جذبات و احساسات پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم یہ ایک حیرت ناک حقیقت ہے کہ سارے ملک حتیٰ کہ مہاراشٹرا اور گجرات جیسی ریاستوں میں بھی عوام کو احتجاج کی آزادی حاصل ہے لیکن ریاست تلنگانہ میں اس جمہوری حق کو صلب کرلیا گیا ہے، حالانکہ تلنگانہ سرکار سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور ریاست تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ نے شہریت ترمیمی بل کو تلنگانہ ریاست میں نافذ نہیں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ریاست تلنگانہ میں حسن اتفاق سے وزیر داخلہ بھی مسلمان ہیں اور قیادت کا دعویٰ کرنے والی جماعت حکومت کی حلیف بھی ہے!! حیرت ہے کہ ان سب کے باوجود یہاں احتجاج کی اجازت نہیں ہے حتیٰ کہ خواتین کو دعائیہ اجتماع کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور نوجوانوں کے خاموش احتجاج پر بھی پابندی عائد ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تلنگانہ میں صدر راج نافذ ہے؟ کیا یہاں کی پولیس مرکزی حکومت کے زیر اثر ہے یا وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ مرکزی حکومت کے سامنے بے بس ہیں ؟ اور تلنگانہ پولیس کا ریموٹ آیا ناگپور میں ہے اور ناگپور ہیڈکوارٹرز سے تلنگانہ پولیس کو ہدایات ملتی ہیں ؟
حیدرآبادی عوام سخت حیرت میں ہیں کہ سارے ملک میں زوردار احتجاج کی اجازت ہے لیکن حیدرآباد جہاں ایک شعلہ بیان قائد بھی موجود ہیں اور جن کے دعویٰ کے مطابق ریاستی حکومت کو وہ کنٹرول کررہے ہیں‘ آخر احتجاج کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے؟ اور پولیس کے جانبدارانہ اور غیر منصفانہ رول پر قائد کیوں مُہر بہ لب ہیں۔ اسی طرح مشترکہ مجلس عمل اور ایکشن کمیٹی اور اس کے قائدین کیوں چُپ سادھے ہیں اور اس سلسلہ میں وزیر اعلیٰ کو کیوں متوجہ کرنے سے وہ قاصر ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشترکہ مجلس عمل اور ایکشن کمیٹی کے قائدین وزیر اعلیٰ سے ملی مسائل کی نمائندگی کرتے ہیں یا پھر وزیر اعلیٰ کی ایماء پر ملت کو احتجاج سے باز رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں؟
شہریت ترمیمی قانون کو لے کر ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کو دیکھ کر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تحریک آزادیٔ ہند کے بعد اتنا بڑا احتجاج ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نظر نہیں آیا جو کہ مکمل پُرامن ہے اور عوام از خود جوش و خروش سے اس میں شامل ہورہی ہے۔ تاہم یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت ’’ صم عمی ‘‘ بنی لگتی ہے چنانچہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ دونوں پر بھی ہورہے زبردست احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ دونوں ہی اس احتجاج کے پسِ پردہ مقاصد کو سمجھنے کے بجائے اس احتجاج کو گمراہ لوگوں کی کارستانی قرار دے رہے ہیں ونیز اس احتجاج کے پیچھے اپوزیشن اور ملک دشمن عناصر کی کارستانی قرار دینے میں لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان دونوں شخصیتوں نے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعہ احتجاج کے خلاف عوام کو اُکسانے اور تشدد کے ذریعہ احتجاج کو ختم کرانے کا غیرذمہ دارانہ کام بھی انجام دیا ہے۔ جامعہ ملیہ اور شاہین باغ کے احتجاجیوں پر رکیک الزام تراشی اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ آیا ملک کی یہ دو مقتدر اعلیٰ شخصیات جمہوری اور سیکولر ہندوستان کی نمائندگی کرتی ہیں یا وہ فاشزم کی علمبردار ظلم و جبر کے امین اور علمبردار ہیں!!
جامعہ ملیہ کے طلباء کو گولیوں کے ذریعہ دو مرتبہ ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی ۔ شاہین باغ کی خواتین کو مسلسل خوف و دہشت میں مبتلاء کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اور بلیریا گنج کی خواتین پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے، آنسو گیس کے گولوں سے انہیں منتشر کیا جاتا ہے، خواتین کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کے اسباب کو آگ لگادی جاتی ہے اور اس مقام کو پانی کے تالاب میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔شرجیل اور ڈاکٹر کفیل کو فرضی الزامات میں سلاخوں کے پیچھے کردیا جاتا ہے ، پرشانت اور یوگیندر رائے کو راج گھٹ پر احتجاج سے رووک دیا جاتا ہے ، حیدرآباد کے ملین مارچ کے منتظمین کے خلاف مقدمات دائر کئے جاتے ہیں۔ آخر یہ کونسی جمہوریت ہے، کونسی آزادی ہے اور کونسا قانون ہے۔؟
برخلاف اس کے مختلف ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی بلکہ مرکزی حکومت کے ذمہ دار مسلمانوں اور احتجاجیوں کے خلاف غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ بیان بازی میں لگے ہیں، لیکن پولیس ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی حتیٰ کہ پرامن احتجاجیوں پر فائرنگ کرنے والوں کو بھی پولیس بچانے کا کام کرتی ہے۔ لگتا ہے کہ ملک کی پولیس اور دیگر ایجنسیاں بلکہ عدالت عالیہ بھی غیرجانبداری کی عظیم روایات سے منحرف ہوچکی ہیں اور برسرِ اقتدار گروہ کی مرضی اور اشارہ پر کام کررہی ہیں ۔ حیدرآباد میں پُرامن خواتین مظاہرین کی گرفتاریوں پر وہ کیوں چُپ سادھ لی ہیں، لگتا ہے کہ انسانی حقوق اور خواتین حقوق کے نام نہاد علمبردار بھی کسی مخصوص پارٹی کے آلۂ کار ہیں اور ان کی حرکت و عمل کے پیچھے وہی ذہن کام کررہا ہے جو شہریت ترمیمی بل کا علمبردار ہے اور مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے لئے کوشاں ہے۔
شہریت ترمیمی بل کے خلاف سارے ملک میں عوامی تحریک زوروں پر ہے، اور تمام انصاف پسند دانشور اس بل کی مخالفت میں کھڑے ہیں، لگتا ہے کہ غرور و تکبر اور انانیت و اقتدار کے نشہ نے برسراقتدار گروہ کو ہٹلر کی راہ پر گامزن کردیا ہے اور جس نے تاریخ میں ظلم و ستم کی ایک خوں چکاں داستاں رقم کی لیکن خود ہی تاریخ میں ایک نشان عبرت بن گیا۔ ہٹلر کے انجام سے ان حکمرانوں کو سبق لینا چاہیئے کہ ظلم و ستم جب سفاکی اور بربریت کی حدیں چھولیتا ہے تو ظالم کی طرف لوٹتا ہے اور پھر ظالم و جابر حکمرانوں کو وسیع ترین دنیا میں بھی کوئی جائے پناہ نہیں ملتی اور ایسے ظالم و جابر حکمراں خود اپنے ہاتھوں ایک عبرتناک انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔
مرکزی حکومت نے ہندوستان کو آزادی کے بعد ایک شدید معاشی بحران سے دوچار کردیا ہے ۔ بیروزگاری کا مسئلہ نوجوانوں میں بے چینی پیدا کررہا ہے، ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں، عوامی شرکت کے ادارے بند ہوتے جارہے ہیں من حیث الکل ملک ترقی سے تنزلی کی طرف رواں دواں ہے۔ ان سب مسائل کا حکومت کے پاس کوئی حل نہیں ہے ۔ ان مسائل کے لے کر وہ عوام کو مطمئن کرنے سے قاصر ہے اور مختلف ریاستوں کے انتخابات میں عوام نے تبدیلی حکومت کے ذریعہ اپنا فیصلہ بھی سنادیا۔ چنانچہ حکمراں ٹولہ کو یہ خوف سنانے لگا ہے کہ کہیں وہ اقتدار سے بے دخل نہ کردیئے جائیں اور طویل حکمرانی کا ان کا خواب چکنا چور نہ ہوجائے اور اپنے کالے کرتوتوں کی سزا کا قہر ان پر کہیں ٹوٹ نہ پڑے، اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ عوام کو سطحی اور جذباتی مسائل میں ہمیشہ اُلجھائے رکھیں اور طویل حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حکمرانوں کے پاس جب عوام کی حقیقی فلاح بہبود کا کوئی ایجنڈہ یا پروگرام نہیں ہوتا اور عوامی مسائل کے حل کی کوئی راہ انہیں سجھائی نہیں دیتی تو وہ عوام کو تفرقہ اور انتشار میں مبتلا کردیتے ہیں۔ آج ملک کچھ ایسی ہی حالت سے دوچار ہے جس سے اندیشہ ہونے لگا ہے کہ کہیں ملک میں ایمرجنسی نہ نافذ کردی جائے اور دستور اور دستوری اداروں کو معطل نہ کردیا جائے تاکہ حکومت مخالف صداؤں کو سلاخوں کے پیچھے کردیا جاسکے اور فاشسٹ نوع کے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل درآمد کیا جاسکے۔
یقیناً ملک تاریخ کے ایک بدترین نازک دور سے گذر رہا ہے ایسے میں تمام محبان وطن افراد کو ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کو اور تمام امن پسند دانشوروں، رہنماؤں اور عوامی جہد کاروں کو باالعموم ملک کی موجودہ صورتحال پر خصوصی غور و فکر کرنا چاہیئے۔ ملک کی موجودہ صورتحال کسی ایک قوم، فرقہ یا گروہ ہی کے لئے تباہ کن نہیں ہے بلکہ سارے ملک کے لئے تشویشناک ہے کیونکہ ملک جب امن و چین سے رہے گا اور ترقی کرے گا تو اس کے فوائد سے جس طرح بلا تفریق مذہب و ملت سارے عوام مستفید ہوتے ہیں، اسی طرح اگر ملک نراج ، بے چینی، تشدد کا شکار ہوتا ہے تو اس کے نقصانات بھی محدود کسی ایک قوم یا فرقہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ملک کی ساری عوام اس سے متاثر ہوگی اس لئے ملک کے تیزی سے بدلتے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ فوری اقدام کیا جائے اور ہر قسم کے گوشہ عافیت کو تج دیتے ہوئے ان حالات کو بدلنے کی ممکن سعی و کوشش کی جائے۔ حکمرانوں کی بداعمالیوں اور اس کے منفی اثرات سے جہاں عوام کو باخبر کرانا ضروری ہے وہیں عوام کو اس بات پر آمادہ کرنا ضروری ہے کہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف تمام فرقوں اور گروہوں کو متحدہ طور پر آگے آنا چاہیئے۔
امت مسلمہ کو قطعی طور پر کسی خوف و دہشت میں مبتلاء ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے، انہیں اپنے اسلاف کے سنہرے ادوار سے سبق لینا چاہیئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے رب سے تعلق کو مضبوط کریں، ایمان اور توکل کو اپنا ہتھیار بنائیں۔ نمرود جیسے حکمراں کی بھڑکائی ہوئی آسمان کو چھوتی آگ حضرت ابراہیم ؑ کو گزند نہیں پہنچا سکی، فرعون کے جمع کردہ سارے ملک کے جادوگر حضرت موسیٰ ؑ کو زیر کرنے کے بجائے ایمان لانے پر مجبور ہوگئے اور نبی محترم کو قتل کرنے کے ارادہ سے جمع ٹولہ غنودگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ’’ حسبنا اللہ و نعم الوکیل ‘‘ کے نعرہ پر ایمان و یقین باطل کو پاش پاش کرنے کیلئے کافی ہے۔ مومن کی زندگی میں شہریت کا مسئلہ زیادہ اہم نہیں ہے، ان کی اصل متاع ایمان ہے۔ ایمان سے سچا رشتہ، ایمان سے وابستگی اور ایمان کی حفاظت مومن کی اصل کامیابی ہے۔
برسرِاقتدار شاہی ٹولہ یہ سمجھتا ہے کہ ڈرانے دھمکانے سے اور مختلف انداز سے خوف زدہ کرنے سے سیاہ قانون کے خلاف احتجاج ختم ہوجائے گا، تاریخ انسانیت سے نابلد یہ نادان کیا جانیں کہ یہ قوم چند انسانوں کے مجموعہ نہیں ہے بلکہ خالق کائنات کا منظور نظر گروہ ہے جن پر اس کی خصوصی عنایت و نگرانی ہے۔یہ وہ گروہ ہے جس کو دریا بھی راستہ دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بھڑکتی ہوئی پہاڑ جیسی آگ گُل گلزار بن جاتی ہے اور اس قوم کے آخری نبی ؐ پر بُری نظر ڈالنے والے کے پیر زمین میں دھنس جاتے ہیں۔ پولیس اور سیکورٹی کے ظلم اور زیادتیوں کے ذریعہ کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس قوم کوزیر کرلے گا اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرلے گا تو وہ دنیا کا سب سے بڑا نادان اور احمق ہوے جس کو کربلا کی تاریخ کا بھی علم نہیں اور اسے یہ پتہ نہیں کہ یہ قوم موت کو عقیدت و محبت سے گلے لگانے والی ہے۔ دنیا اور متاع دنیا اس قوم کے لئے ہیچ ہیں اور یہ قوم مالک کائنات کی غلام ہے کسی اور کی غلامی کرنہیں سکتی۔ تم چاہتے ہو کہ اس قوم کو غلام بناکر رکھیں اور تمہاری خواہش ہے کہ یہ قوم بھی ضمیر اور ایمان فروش نقوی، حسین اور عارف کی طرح اپنے عقیدہ اور ایمان سے دستبردار ہوجائے ، تمہیں آگاہ ہونا چاہیئے کہ اس قوم کا ایک بچہ بھی تمہاری خواہش کے مطابق بننے والا نہیں ہے۔ کاش! نفرت و تعصب کے چشمہ کو تم تبدیل کریں اور سچائی، حق اور انصاف کی راہ پر گامزن ہوں اور خالق کائینات تمہیں راہِ ہدایت سے سرفراز فرمائے۔ آمین ۔
کہیں شعب ابی طالب، کہیں طائف ، کہیں خندق
ہماری منزلِ مقصود کا پُرخار راستہ ہے