جمہوریت اور عوامی فیصلے سے کھلواڑ

   

ہر صبح ہوا رات کا ہر خواب فراموش
دنیا یہی ہے تو کیوں یاد رہے گی
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔ یہاںعوام اور عوام کی رائے کی سب سے زیادہ اہمیت ہوا کرتی تھی ۔ جمہوریت کا تقاضہ ہی یہی ہے کہ رائے عامہ کا احترام کیا جائے اور اسی کی بنیاد پر تمام فیصلے اور کام کئے جائیں۔ ہندوستان دنیا کی بڑی جمہوریت ہے اورا سی وجہ سے دنیا بھر میں ملک کو عزت و توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے ۔ ہماری جمہوریت نے ہی اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ سماج کے کمزور اور پسماندہ ترین طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اعلی ترین عہدوں پر فائز ہوئے ہیں۔ آزاد ہندوستان میںیکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتوں نے جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کیلئے اپنے طور پر اقدامات کئے ہیں۔ طاقتور سمجھے جانے والے حکمرانوں کو عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ شکست سے دو چار کردیا تھا ۔ تاہم حالیہ چند برسوں سے جمہوری عمل کے نام پر عوامی فیصلوں اور ان کی رائے سے کھلواڑ کرتے ہوئے اقتدار ہتھیانے کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ ملک کی کئی ریاستوں میں عوام نے ایک مخصوص جماعت کے خلاف اور دوسروں کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا ۔ تاہم مرکز میں اپنے اقتدار کاف ائدہ حاصل کرتے ہوئے بی جے پی کی جانب سے ان ریاستوں میں اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کو کسی نہ کسی طرح سے بیدخل کرتے ہوئے خود اقتدار حاصل کرلیا گیا ۔ کرناٹک میں یہی کچھ کیا گیا ۔ پھر مدھیہ پردیش میںکانگریس حکومت کا تختہ الٹا گیا ۔ مہاراشٹرا میں کانگریس ۔ این سی پی اور شیسوینا کی اتحادی حکومت کو زوال کا شکار کردیا گیا ۔ بہار میں خود بی جے پی کے حلیف نتیش کمار کا تختہ پلٹنے کی تیاری ہو رہی تھی جسے قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے نتیش کمار نے خود اتحاد بدل دیا جس کے باعث بی جے پی وہاں اپنے عزائم کی تکمیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی اپزیشن کی صفوں میں انتشار اور انحراف پیدا کرنے کا بی جے پی پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے ۔ اب دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے دو ماہ ہورہے ہیں تاہم ابھی تک وہاں مئیر کا انتخاب نہیں ہوسکا ہے کیونکہ وہاں اکثریت نہ رکھنے کے باوجود بی جے پی یہ عہدہ ہتھیانا چاہتی ہے ۔
دہلی میں بلدیہ پر بی جے پی کو تین معیادوں سے اقتدار حاصل تھا ۔ عام آدمی پارٹی نے اس بار انتخابات میں بی جے پی کے اقتدار کو ختم کرتے ہوئے خود کامیابی حاصل کی ۔ 250 رکنی بلدیہ میں بی جے پی کو شکست ہوئی اور عام آدمی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرلی ۔ اس کے باوجود بی جے پی یہاں کسی نہ کسی طریقے سے مئیر کا عہدہ حاصل کرنے کی سازشیں کرتی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک یہاں مئیر کا انتخاب نہیں ہوسکا ہے ۔ ایوان میں اکثریت اور عددی طاقت نہ رکھنے کے باوجود جب بی جے پی نے اپنے امیدوار کا اعلان کیا تب ہی یہ شکوک تقویت پانے لگے کہ بی جے پی یہاں بھی توڑ جوڑ کا کھیل کھیلنا چاہتی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے منتخب کونسلرس کو خریدنا چاہتی ہے اور انہیں انحراف کیلئے اکسانا چاہتی ہے ۔ درپردہ ان کی تائید حاصل کرتے ہوئے بی جے پی اپنے مئیر کا انتخاب کروانے کی تگ و دو بھی کر رہی ہے ۔ یہ سارا کچھ عوامی فیصلوں کو قبول نہ کرنے کے مترادف ہے ۔ جمہوری عمل کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ عوام نے جب اسے اکثریت نہیں دی اور دوسری جماعت نے ایوان میں اکثریت حاصل کرلی ہے تب اس طرح کی کوششیں کرنا ملک پر حکومت کرنے والی جماعت کیلئے بالکل ذیب دینے والا عمل نہیں ہے ۔ اس سے بی جے پی کے عزائم واضح ہوتے ہیں کہ وہ عوامی رائے کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے بلکہ وہ کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی طریقے سے ہر مقام پر اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے اور یہ طرز عمل انتہائی افسوسناک ہے ۔
جس طرح سے رائے عامہ کو یرغمال بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور کچھ مواقع پر کامیابی بھی مل رہی ہے وہ افسوسناک ہی کہی جاسکتی ہے ۔ جمہوریت کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد جمہوری عمل ہی کو کوکھوکھلا کرنے والے کام کرتے ہوئے بی جے پی عوام کے سامنے ایک غلط مثال قائم کر رہی ہے ۔ مرکز میں اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے دوسروں پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے اور یہ ہندوستانی روایات اور ہمارے جمہوری عمل کے یکسر مغائر ہے ۔ ایسا ہندوستان میں کبھی ہوا نہیں ہے اور نہ کبھی ہونا چاہئے ۔ ملک کے عوام کو چاہئے کہ وہ جب کبھی جہاں کہیں اپنے ووٹ کا استعمال کریں بی جے پی کی اس روش کو پیش نظر ضرور رکھیں۔