جمہوریت سے مذاق

   

ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتوں میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ ہندوستان کی جمہوریت کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ یہ عوام کے ذریعہ چلتی ہے ۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ حکومتوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ حکومتوںکو زوال کا شکاربھی کرتے ہیں۔ کسی کی سیاسی قسمت بناتے ہیں توکسی کی سیاسی قسمت کو بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ کسی کو تخت سے اتار سکتے ہیں تو کسی کو تخت پر بٹھا بھی سکتے ہیں۔ تاہم گذشتہ کچھ عرصہ سے دیکھا گیا ہے کہ یہ انتخابات عوام کے ووٹ تک محدود نہیں رہ گئے ہیں بلکہ انتخابی عمل کو سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں نے یرغمال بنا لیا ہے ۔ یہ امیدوار طاقت کے بل پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ جو جتنا طاقتور ہوتا ہے اس کی انتخابی کامیابی کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ جو امیدوار پیسے کے بل پر انتخاب لڑتا ہے وہ بھی کامیابی کے قریب سمجھا جاتا ہے ۔ عوام کو لالچ دیتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل نہیں کئے جاتے بلکہ خریدے جاتے ہیں۔ ایک اسمبلی حلقہ کیلئے انتخابی اخراجات الیکشن کمیشن کی جانب سے زیادہ سے زیادہ 50 لاکھ روپئے تک ہوتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں نے اقتدار کے لالچ میں انتخابات کو مہنگا ترین عمل بنادیا ہے ۔ یہاں قوانین اور اصولوں کی دھجیاں انتہائی دھڑلے سے اڑائی جاتی ہیں اور پھر یہی امیدوار جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے اعلی عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اورسینکڑوں کروڑ روپئے کی رشوت ستانی عام ہوجاتی ہے ۔ کوئی امیدوار نقد رقم بانٹتا ہے تو کوئی شراب کی ندیاں بہادیتا ہے ۔ کوئی کسی طرح سے لالچ دیتا ہے تو کوئی اور طریقہ سے لالچ دیتا ہے ۔ یہی حال اب تلنگانہ کے حلقہ منوگوڑ کا ہوگیا ہے ۔ کانگریس کے رکن کومٹ ریڈی راج گوپال ریڈی کے پارٹی اور اسمبلی سے استعفی کی وجہ سے وہاں ضمنی انتخاب ہو رہا ہے تاہم وہاں جس طرح سے اقتدار اور پیسے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ جمہوریت سے انتہائی بھونڈا مذاق ہے ۔ یہ جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والا عمل ہے ۔ اس کے ذریعہ جمہوریت کا استحکام نہیں ہوگا بلکہ اس سے جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہونگی اور عوام کا بھروسہ اوراعتماد حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔
جو اطلاعات مل رہی ہیں ان کے مطابق منوگوڑ کے ایک اسمبلی حلقہ کا الیکشن ایک ہزار کروڑ روپئے کے اخراجات تک بھی جاسکتا ہے ۔ یہ پیسے کی طاقت کا بدترین مظاہرہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس طرح سے منتخب ہونے والے نمائندے عوامی نمائندے ہرگز نہیں کہے جاسکتے ۔ یہ طاقت کے بل پر اورپیسے کے بل پر منتخب ہونیو الے نمائندے ہوتے ہیں جنہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوسکتا ۔ منوگوڑ حلقہ میں سونا بانٹنے کی اطلاعات ہیں۔ کاریں اور موٹر سیکلیں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ رائے دہندوں کو نقد رقم فراہم کی جا رہی ہے ۔ ایک ایک ووٹ کی قیمت دس دس ہزار روپئے تک پہونچا دی گئی ہے ۔ یہ ہندوستان جیسے جمہوری عمل میں اصولوں اور قوانین سے بدترین مذاق ہے ۔ ایسا کرنے والے امیدواروں کے تعلق سے الیکشن کمیشن کو بھی حرکت میں آتے ہوئے غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرکے کارروائی کرنی ہوگی ۔ ایسے امیدواروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے انہیں مقابلہ سے دور کیا جانا چاہئے ۔حلقہ کے عوام کو بھی ان امیدواروں کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ وقتی فائدہ کیلئے اگر وہ اپنے ووٹ کو فروخت کرتے ہیں تو وہ بھی جمہوریت سے مذاق کرنے میں برابر کے ذمہ دار ہونگے اور اس کے نتیجہ میں صورتحال ان کے قابو سے باہر ہو جائے گی ۔ وہ اپنا نمائندہ منتخب نہیں کریں گے بلکہ اپنے آپ کو فروخت کرنے کے مرتکب بنیں گے ۔ اس طرح سے منتخب ہونے والے نمائندے عوامی مسائل پر توجہ دینے کو ہرگز تیار نہیںہونگے ۔
افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سینکڑوں کروڑ روپئے ایک حلقہ اسمبلی میں خرچ کرنے والے امیدواروں میں ایسے امیدوار شامل ہیں جو برسر اقتدار جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ چاہے وہ ریاست میں برسر اقتدار ہوں یا پھر مرکز میں برسر اقتدار ہوں ۔ یہی جماعتیں ہیںجو عام حالات میں عوام کو اصولوں اوراخلاقیات کا درس دیتی ہیں۔ انہیں جمہوریت کی دہائی دیتی نظر آتی ہیں لیکن جب ان ہی جماعتوںکو عوام کی تائید حاصل کرنی ہوتی ہے تو وہ اپنی کارکردگی پر بھروسہ نہیںکرپاتے بلکہ وہ عوام کے ووٹ خریدتے ہیں اور انہیں لالچ دی جاتی ہے ۔ یہ طریقہ کار ملک کی جمہوریت کیلئے خطرناک ہے ۔ عوام کیلئے خطرناک ہے اور اس سے امیدواروں اور رائے دہندوں سبھی کو بچنے کی ضرورت ہے ۔