جنت میں درخت !

   

عن ابن مسعود رضي اللہ عنه مرفوعاً: «لَقِيْتُ إبراهيم ليلة أُسْرِيَ بي، فقال: يا محمد أقْرِىء أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلام، وأَخْبِرْهُم أن الجنَّة طَيّبَةُ التُّربَة، عَذْبَةُ الماء، وأنها قِيعَانٌ وأن غِراسَها: سُبْحَانَ اللّهِ وَالْحَمْدُ لِلّهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ وَاللّهُ أَكْبَرُ ». [رواه الترمذي]
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، وہ چٹیل میدان ہے اور اس کی باغبانی ” سُبْحَانَ اللّهِ وَالْحَمْدُ لِلّهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ وَاللّهُ أَكْبَرُ“ سے ہوتی ہے“۔
حَسَنْ – اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
شرح: آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے اسراء اور معراج کی رات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کی، انہوں نے فرمایا کہ اپنی امت کو میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ جنت کی مٹی پاک ہے، دوسری احادیث میں آتا ہے کہ اس کی مٹی ’زعفران‘ ہے، صحابہ نے آپ ﷺ سے جنت کے بارے میں پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا اس کی مٹی زعفران ہے ۔ (ترمذی)  جنت کی مٹی ورس (ایک پیلا، خوشبودار پودا ہے جو یمن میں پایا جاتا ہے۔) اور زعفران ہے۔(مسند احمد) جب جنت کی مٹی پاک اور اس کا پانی شیریں ہے، تو لامحالہ اس کے درخت بھی پاک ہوں گے اور وہ درخت پاک کلمات سے حاصل ہوں گے اور وہ باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔ لہٰذا جو شخص بھی اللہ کی تسبیح، تعریف یا تہلیل بیان کرتا ہے، اس کے لیے اس کے عوض جنت میں ایک درخت لگے گا۔