جنوب میں بی جے پی کی مشکلات

   

ملک بھر میں سیاسی غلبہ اور ملک کے ایک بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والی بی جے پی کیلئے جنوبی ہند اب بھی ’’ ہنوز دلی دور است ‘‘ والی مثال بنا ہوا ہے ۔ جنوبی ہند میں اپنے قدم جمانے اور سیاسی استحکام حاصل کرنے پر بی جے پی نے ساری توجہ مرکوز کردی ہے ۔ جس طرح سے بنگال اور دوسری ریاستوں کیلئے پارٹی کی اعلی قیادت نے منصوبے تیار کئے تھے اسی طرح اب جنوبی ہند کی ریاستوں کیلئے سرگرمی سے اقدامات شروع کردئے گئے ہیں۔ اس کیلئے پارٹی کے مرکزی قائدین مسلسل جنوبی ریاستوں کا دورہ کرنے لگے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ شمالی ہند میں بی جے پی کیلئے مشکلات میںاضافہ ہونے لگا ہے اور وہاں اس کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد میں کمی آسکتی ہے ۔ جس طرح سے راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ دہلی ‘ ہریانہ ‘ اترپردیش اور بہار میں بی جے پی کو گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں کثیر تعداد میں نشستیں حاصل ہوئی تھیں اب وہ صورتحال نہیں رہے گی اور وہاں پارٹی کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اسی اندیشے کے تحت شمالی ہند کے نقصان کو جنوبی ریاستوں سے پورا کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے ۔ اس کیلئے بی جے پی کی جانب سے جو منصوبے تیار کیا گیا ہے وہ بتدریج منظر عام پر آنے لگا ہے اور اسی کے تحت مختلف پروگرامس منعقد کئے جا رہے ہیں۔ تاہم بی جے پی کیلئے جنوبی ہند میں قدم جمانا بھی آسان نہیںہے ۔ شمالی ہند میں حالانکہ بی جے پی نے نسبتا آسانی سے کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن جنوب میں اس کیلئے ایسا کرنا آسان نہیںہے ۔ بی جے پی کو جنوب میں صرف کرناٹک میںاقتدار حاصل ہے اور وہاں بھی اس کیلئے اقتدار بچانا مشکل ہے ۔ یہ اقتدار بھی اس نے پچھلے درواز ے سے کانگریس اور جے ڈی ایس میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے حاصل کیا تھا ۔ اس اقتدار کو بچانا بھی بی جے پی کیلئے مشکل ہوگیا ۔ کہا جا رہا ہے کہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے کرناٹک میںعوامی موڈ کو تبدیل کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے اور بی جے پی کیلئے حالات سازگار نہیں رہ گئے ہیں۔ ریاست میں کانگریس کے حق میں لہر پائی جانے کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں۔
اسی طرح دوسری جنوبی ریاستوں میں بی جے پی کا وجود برائے نام ہے ۔ ٹاملناڈو میں بی جے پی پوری کوشش کے بعد بھی کوئی سیاسی استحکام حاصل نہیں کرسکی ہے ۔ کیرالا کیلئے بھی کئی منصوبے بنائے گئے اور اہم شخصیتوں کو اپنے ساتھ ملایا گیا تاہم ایک اسمبلی نشست پر بھی پارٹی کو کامیابی نہیں مل سکی اور وہاں بھی اس کا وجود برائے نام ہی ہے ۔ آندھرا پردیش میں بی جے پی دوسری جنوبی ریاستوں کی طرح صرف تشہیر میں دکھائی دیتی ہے ۔ زمین پر اس کا کوئی سیاسی وجود نہیں ہے ۔ آندھرا پردیش کی جو سیاست ہے اس میں بی جے پی کیلئے اپنے قدم جمانا آسان نہیں ہوگا ۔ شائد اسی وجہ سے اداکار سے سیاستدان بننے والے پون کلیان کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ پون کلیان بھی اپنے سیاسی سفر کو کامیابی سے شروع کرنے کیلئے بی جے پی کا ہاتھ تھامنے پر مجبور ہیں۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ وائی ایس آر کانگریس اور تلگودیشم کے ووٹوں کو چھیننا دونوں کیلئے ہی آسان نہیں ہوگا ۔ تلنگانہ میں بی جے پی کا کچھ وجود ضرور ہے ۔ اس نے منصوبہ بند انداز میں ریاست کیلئے مہم چلائی تھی اور کچھ حد تک وہ عوام میںموضوع بننے میں کامیاب رہی ہے تاہم یہ کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کے چار ارکان پارلیمنٹ ہیں لیکن اب وہ ارکان خود اسمبلی کیلئے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ۔ ریاست کے تمام حلقوں کیلئے بھی پارٹی کے پاس امیدوار دستیاب نہیںہیں اور پارٹی کو تلنگانہ میں بھی کسی سیاسی حلیف کی ضرورت ہے جو شائد مشکل ہی سے پوری ہو پائے گی ۔
اس صورتحال میں بی جے پی کیلئے جنوبی ہند کا سفر آسان نہیں کہا جاسکتا ۔ حالانکہ پارٹی کی جانب سے پوری سرگرمی سے کوششیں کی جا رہی ہیں اور کئی منصوبے بنائے جا رہے ہیں لیکن جنوبی ریاستوں کے قائدین اپنے انداز میں کام کرنے کے عادی ہیں اور وہ مرکزی ہدایات پر من و عن عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ ریاستی قائدین کے عزائم اور ان کے منصوبوں کی وجہ سے بھی پارٹی کیلئے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس صورتحال نے پارٹی کیلئے جنوبی ہند میںجو مشکلات پیش کی ہیںان کو آسانی سے حل کرنا ممکن نہیں کہا جاسکتا ۔ پارٹی اپنے منصوبوںمیں کس حد تک کامیاب ہوگی یہ تو انتخابی نتائج سے ہی پتہ چل پائے گا ۔