جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج

   

جان ہے تو جہان ہے … مودی نعرہ بھول گئے
عوام کی زندگی سے زیادہ معیشت کی فکر
انتخابی ریاستوں میں کورونا چھٹی پر

رشیدالدین
’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ یہ وہ نعرہ ہے جو گزشتہ سال مارچ میں کورونا لاک ڈاؤن کے نفاذ کے وقت وزیراعظم نریندر مودی نے لگایا تھا۔ نریندر مودی وقت اور حالات کے اعتبار سے بولیوں کے ماہر ہیں، لہذا آج یہ نعرہ بھول چکے ہیں۔ کورونا کے حالات گزشتہ سال سے ابتر ہیں لیکن نریندر مودی کو عوام کی جان سے زیادہ معیشت اور سرکاری خزانہ کی فکر ہے۔ ایسی معیشت کس کام کی جس سے فائدہ اٹھانے کیلئے کوئی بقید حیات نہ ہو۔ یہ مانا کہ سیاستدانوں کی ترجیحات وقت کی نزاکت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں لیکن کورونا بحران میں انسانیت سے بڑھ کر کوئی ترجیح نہیں ہوسکتی۔ نت نئی بولیوں کے ساتھ فائدہ اٹھانا تو کوئی نریندر مودی سے سیکھیں۔ ’’جو تم کو ہو پسند وہی بات کہیں گے‘‘ فلمی نغمہ کے مصداق نریندر مودی نے اپنے اطراف ایسا حلقہ تیار کرلیا ہے جو دن کو رات کہنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے ۔ بھلے ہی دلائل سے ثابت نہ کرسکیں۔ نہ صرف مرکز بلکہ ریاستوں کو بھی عوامی زندگی کے تحفظ سے زیادہ خزانہ کو نقصان سے بچانے کی فکر ہے۔ مارچ 2020 ء میں کورونا کی پہلی لہر رونما ہوتے ہی مودی حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا۔ جنتا کرفیو سے آغاز ہوکر لاک ڈاؤن پر اختتام ہوا ۔ ٹھیک ایک سال بعد مارچ میں ہی کورونا کی دوسری لہر نے دستک دی ہے جو پہلی لہر سے زیادہ خطرناک اور مہلک بتائی جاتی ہے ۔ وائرس پھیلنے کی رفتار پہلی لہر سے زیادہ تیز ہے جبکہ کورونا ویکسین ایجاد ہوچکی ہے اور لوگ اسے آب حیات سمجھ کر حاصل کر رہے ہیں ۔ ویکسین کی ایجاد کے وقت تو کورونا کے صفائے کے بارے میں دعوے کئے گئے تھے۔ شائد یہی دعوے کورونا کو ناراض کرنے کے لئے کافی تھے۔ کورونا پہلی لہر کے مقابلہ مزید شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا اور ویکسین کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ۔ اب کہا جارہا ہے کہ ویکسین کے دو خوراک لینے کے بعد اثر دکھائی دے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے وجود اور قدرت کاملہ کا احساس دلانے کیلئے انسانیت کو بار بار جھنجوڑ رہا ہے لیکن ہم ہے کہ خواب غفلت کا شکار ہیں۔ جس نے مرض بھیجا ہے ، وہی شفاء پر قادر ہے اور ہم خالق کائنات اور شافی انسانیت سے رجوع ہوکر اسے منانے کے بجائے ویکسین اور حکومتوں پر انحصار کئے ہوئے ہیں ۔ ویکسین تو محض ایک ظاہری بہانہ ہے ۔ سائنس نے خوب ترقی کرلی ، دنیا نے ایٹمی ہتھیار بھی تیار کئے جو چند گھنٹوں میں دنیا بھر کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ایک نظر نہ آنے والے وائرس کے آگے بے بس ہیں۔ گزشتہ سال تین ماہ طویل لاک ڈاؤن کے ساتھ سخت پابندیاں عائد کی گئیں تھیں لیکن دوسری لہر سے عوام کو محفوظ رکھنے میں حکومت غیر سنجیدہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پہلی لہر کے وقت کئے گئے اقدامات درست تھے یا پھر آج کا موقف درست ہے جبکہ کیسس کی تعداد گزشتہ سال سے زیادہ ہے ۔ عوامی زندگی کے تحفظ کی ذمہ داری سے مودی حکومت راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتی۔ نریندر مودی نے ریاستوں کے چیف منسٹرس کے ساتھ اجلاس میں پابندیوں اور تحدیدات کا معاملہ ریاستوں پر چھوڑ دیا ہے۔ ریاستوں کو کورونا نائیٹ کرفیو کے نفاذ کا مشورہ دیا گیا ۔ جب ریاستوں کو ہی سب کچھ کرنا ہو تو پھر مرکز کا وجود کس کام کا؟ مرکز کا کام صرف جملہ بازی اور ملک بھر میں نئے کیسس اور اموات کی گنتی کرنا ہے۔ مرکز اپنی ذمہ داریوں سے گریزاں کیوں ہے۔ جب کیسس اور اموات گزشتہ سال سے زائد ہیں تو پہلے سے زیادہ سخت گیر اقدامات فطری تھے لیکن مودی حکومت کوئی الزام اپنے سر لینا نہیں چاہتی ، لہذا ریاستوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ۔

ظاہر ہے کہ ریاستوں کو بھی مرکز کی طرح معیشت اور اپنے خزانوں کی فکر ہے اور کیسس میں اضافہ کے باوجود تلنگانہ کے بشمول کئی ریاستوں کی حکومتیں ماسک کے استعمال اور چالانات کو کورونا کا مداوا تصور کر رہی ہیں۔ ویسے بھی ریاستوں کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے نقصانات کی مرکز سے پابجائی نہیں کی گئی تھی۔ جب مرکز سے کوئی امید ہی نہیں رہے تو کونسی حکومت لاک ڈاؤن کے ذریعہ اپنی آمدنی کو متاثر کرنا چاہے گی۔ مرکز نے دوسری لہر کو بد سے بد تر قرار دیا لیکن ذمہ داری کے احساس کے بجائے عوام کی موت کا تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ پابندیاں اور تحدیدات وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں اور اموات کی شرح بھی کم ہوگی۔ کچھ کئے بغیر صرف احتیاطی تدابیر کی بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے سڑکوں سے ٹریفک پولیس کو ہٹاکر یہ امید کی جائے کہ عوام ٹریفک قواعد پر عمل کریں گے ۔ عوام کو کورونا کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جیسے کہ فوت ہوگئے تو شہید اور زندہ بچ گئے تو غازی ۔ حکومتوں کے غیر ذمہ دارانہ رویہ نے عوام کی بے حسی کو عروج پر پہنچادیا ہے ۔ احتیاطی تدابیر کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں اور بازاروں اور آبادیوں کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ کورونا نام کی کسی شئے کا جیسے وجود ہی نہ ہو۔ عوام کی یہ بے احتیاطی اور تساہل کے معاملہ میں دیگر اقوام اور مذاہب کے مقابلہ مسلمان آگے ہیں ۔ یقیناً موت اور حیات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں لیکن اسلام نے جان بوجھ کر موت کے منہ میں جانے سے منع کیا ہے۔ بیماری اور وباؤں کی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تعلیمات ہیں۔ کورونا سے بچاؤ کے لئے سرکاری سطح پر احتیاطی تدابیر سے پتہ چلا کہ کورونا ایک شریف النفس وائرس ہے۔ شراب خانے ، وائین شاپ ، بارس ، کلبس ، پبس اور تھیٹرس میں احتیاطی تدابیر کے بغیر سرگرمیاں جاری ہیں لیکن وہاں کورونا کا کوئی اثر نہیں ۔ پابندیاں تو عبادت گاہوں ، تعلیمی اداروں اور مذہبی سرگرمیوں کیلئے ہیں۔ شاپنگ مالس ، ریسٹورینٹ اور تفریحی مقامات بھی شائد کورونا کو پسند نہیں۔ کورونا کا سلیکٹیو حملہ بھی عوام کے لئے باعث حیرت بن چکا ہے ۔
کورونا محض ایک وائرس ہی نہیں بلکہ ماہرین نفسیات کی نظر میں یہ ایک حساس شخصیت کا مالک دکھائی دیتا ہے جسے اچھے اور برے کی تمیز کے علاوہ حکومت کے کام کاج کی فکر ہے ۔ انتخابات والی ریاستوں اور کسانوں کا احتجاج اس کی زندہ مثال ہے۔ یہ دونوں مقامات کورونا سے محفوظ ہیں۔ کسان گزشتہ 7 ماہ سے احتجاج پر ہیں اور ہزاروں کسان سڑکوں پر ہیں لیکن کورونا احتجاجی کسانوں پر مہربان دکھائی دیتا ہے ۔ شائد کسانوں کے مطالبات سے کورونا کو ہمدردی ہوچکی ہے ۔ اسی طرح الیکشن والی ریاستوں میں کورونا چھٹی پر دکھائی دیتا ہے ۔ انتخابی مہم اور ریالیوں میں کورونا قواعد کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ، پھر بھی الیکشن والی ریاستوں میں کورونا کے کیسس قابو میں ہیں۔ خیر کورونا کی مرضی اور اختیار کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ وہ جس کو چاہے متاثر کرے اور جس کو چاہے چھوڑدے۔ چناؤ والی ریاستوں میں کورونا کے عدم پھیلاؤ پر حکومت کو جواب دینا ہوگا۔ پانچ ریاستوں میں الیکشن کی تکمیل تک شائد کورونا ان ریاستوں کا رخ نہیں کرے گا ۔ گزشتہ سال ہندوستان میں کیرالا سے کورونا کا آغاز ہوا تھا جسے کورونا کی جنم بھومی کہا جاتا ہے لیکن اس مرتبہ کیرالا میں انتخابی مہم کورونا سے پاک رہی ۔ آخر کورونا کی سچائی اور حقائق کیا ہیں ، اس بارے میں عوام کو واقف کرایا جائے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کورونا الیکشن کے نام سے ڈرتا ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ملک بھر سے کورونا کو بھگانے کیلئے لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات کرائے جائیں ، شائد ملک بھر میں الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی کورونا ہندوستان سے رفو چکر ہوجائے۔ سیاسی مبصرین اور سیاسی جماعتوں کی رائے اس بارے میں مختلف ہے۔ مرکزی حکومت کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی ریالیوں میں کورونا کیوں نہیں ہوتا۔دونوں کی ریالیوں میں ہزاروں افراد شریک ہورہے ہیں اور ماسک و سماجی فاصلے کا دور دور تک پتہ نہیں۔ اسی طرح ممتا بنرجی اور دیگر اپوزیشن قائدین کی ریالیاں اور جلسے کورونا قواعد سے بالاتر ہیں۔ پھر بھی وہاں کورونا نے اپنا اثر نہیں دکھایا۔ کیا کورونا کے سرکاری اعداد و شمار حقیقت پر مبنی ہیں یا پھر کورونا کے نام پر کوئی کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ ہندوستان ہی نہیں دنیا بھر میں کورونا کے وجود پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ سیاستداں بھلے ہی کورونا کا خوف دلاتے رہیں لیکن عوام کے دلوں سے اس کا خوف نکلتا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں احتیاطی تدابیر کی کھلے عام خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نریندر مودی حکومت کو انتخابی مراحل کی تکمیل کا انتظار ہے۔ مغربی بنگال میں 8 مرحلوں کے چناؤ کی تکمیل کے بعد شائد مرکزی حکومت نئی پابندیاں عائد کرنے پر غور کرے۔ نامور شاعر قتیل شفائی کا یہ شعر حالات پر صادق آتا ہے ؎
جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں