جھوٹی تسلیوں سے سنبھالا نہ جائے گا

,

   

مِنی جنرل الیکشن … تبدیلی کی لہر
مودی میجک کمزور … ’ انڈیا اتحاد‘ کو غلبہ

رشید الدین
مِنی جنرل الیکشن کی لڑائی آخری اور فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے۔ بی جے پی اور کانگریس نے انتخابی جنگ میں اپنے تمام ماہر اور تجربہ کار کمانڈرس کو اُتار دیا ہے جو عصری ہتھیاروں کی شکل میں جملہ بازی اور ایک دوسرے پر تنقید کے ذریعہ حملہ کررہے ہیں۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات آئندہ لوک سبھا چناؤ رجحان کو طئے کریں گے۔ اسمبلی چناؤ ایک نئے سیاسی ماحول میں ہورہے ہیں جہاں اپوزیشن نے نئی صف بندی کے ذریعہ ’’ انڈیا اتحاد ‘‘ تشکیل دیا ہے جو بی جے پی کیلئے چیلنج بن چکا ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں منتشر اپوزیشن کا بی جے پی اور نریندر مودی نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور مودی حکومت کے کسی بھی فیصلہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، طلاق ثلاثہ، دفعہ 370 ، کسان بل الغرض بی جے پی جو چاہتی اس کی منظوری حاصل کرتی رہی۔ کمزور اور منتشر اپوزیشن نے نریندر مودی کو من مانی کا لائسنس دے دیا تھا جس نے عوام کو کئی مرتبہ آزمائش میں مبتلاء کردیا ۔ جس طرح انگریزوں کی حکومت میں سورج غروب نہ ہونے کا تصور تھا ٹھیک اُسی طرح مودی کا ستارہ ہمیشہ عروج پر رہا۔ قانون فطرت اٹل ہے اور قدرت کے تقاضوں اور فیصلوں سے کسی کو فرار نہیں۔ جس طرح ہر عروج کو زوال ہے‘ قدرت نے بی جے پی سے مقابلہ کیلئے ’ انڈیا اتحاد‘ کو کھڑا کردیا۔ ایک مرحلہ وہ بھی تھا جب مودی کی مخالفت مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ملک کی تاریخ میں مرکزی ایجنسیوں نے جو کام 9 برسوں میں کیا اتنا تو 70 برسوں میں نہیں کیا ہوگا۔ کوئی بھی اپوزیشن پارٹی ایسی نہیں جس کے قائدین کو سی بی آئی اور ای ڈی نے نشانہ بنایا نہ ہو۔ مثل مشہور ہے کہ ’’ ٹھوکریں کھانے کے بعد ہی انسان ہوش میں آتا ہے‘‘ اُسی طرح مسلسل آزمائش اور ہراسانی سے عاجز آکر اپوزیشن نے کانگریس کی چھتر چھایا میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ’ انڈیا اتحاد‘ کے تشکیل پاتے ہی 5 ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کے اعلان نے امتحان کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ بی جے پی نے ’ انڈیا اتحاد‘ کی طاقت کو سمجھنے میں غلطی کی تو دوسری طرف خود ’ انڈیا اتحاد‘ کو بھی یقین نہیں تھا کہ وہ بی جے پی کے مقابل کھڑا ہوجائے گا۔ راہول گاندھی کو کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا نے سیاسی طور پر پختہ بنادیا ہے اور اسی تجربہ نے دیگر اپوزیشن کو کانگریس کے قریب کردیا۔ الغرض پانچ ریاستوں کے چناؤ ’ انڈیا اتحاد‘ کی طاقت کا پہلا امتحان ہے۔ میزورم کے ما سواء 4 اہم ریاستوں کے نتائج کا لوک سبھا چناؤ پر ضرور اثر پڑے گا۔ تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے اور مودی۔امیت شاہ جوڑی کا جادو اپنا اثر کھونے لگا ہے۔ بی جے پی کو امید تھی کہ راجستھان اور چھتیس گڑھ کانگریس سے چھین لے گی لیکن مدھیہ پردیش کو بچانا بی جے پی کیلئے مشکل ہوچکا ہے۔ تمام سروے کانگریس کے حق میں ہیں اور صرف راجستھان میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس کا موقف مستحکم دکھائی دے رہا ہے۔ کرناٹک اور اروناچل پردیش سے کانگریس کی کامیابی کے سفر کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ شاید لوک سبھا چناؤ تک پہنچ جائے۔ کانگریس دیگر اپوزیشن کا احترام کرتے ہوئے تمام مظلومین کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب رہی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پانچ ریاستوں کے نتائج اگر بی جے پی کے خلاف آتے ہیں تو بی جے پی میں مودی۔ امیت شاہ کے خلاف دبی ہوئی آوازیں تیز ہوجائیں گی اور وزیر اعظم کے چہرے کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار بھی ہندوتوا کے نئے چہرے کی تلاش شروع کردیں گے۔ چناوی ریاستوں میں جہاں بھی بی جے پی اور غیر کانگریس حکومت ہے وہاں تبدیلی کا رجحان دکھائی دے رہا ہے۔ مدھیہ پردیش اور تلنگانہ تبدیلی کی لہر کے زیر اثر ہیں جبکہ راجستھان میں مخالف حکومت لہر نے بی جے پی کی امیدوں کو تیز کردیا ہے۔ جہاں تک چھتیس گڑھ کا سوال ہے چیف منسٹر بھگیل کی کارکردگی سے عوام مطمئن ہیں۔ میزورم میں رائے دہی مکمل ہوگئی جبکہ چھتیس گڑھ میں پہلے مرحلہ کی رائے دہی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام نے بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈہ کو مسترد کردیا ہے۔ بی جے پی کے الیکشن کمپینرس کے پاس عوام کو راغب کرنے کیلئے موضوعات کی کمی ہے۔ مودی۔ امیت شاہ کے جلسوں میں جوش و خروش دکھائی نہیں دے رہا ہے اور جلسوں کی ناکامی خطرہ کی گھنٹی ہے۔ وہ بھی ایک دور تھا جب مودی کے نام سے لوگ جمع ہوجاتے تھے لیکن اب دولت کا بے دریغ استعمال بھی عوام کو گھروں سے نکالنے میں کارگر دکھائی نہیں دیتا۔ مودی اور امیت شاہ اپنی روایتی جملہ بازی، اداکاری اور سیاسی حریفوں پر طنز کا ہُنر جیسے بھول چکے ہیں۔ دونوں کو شکست کا خوف ستارہا ہے۔ ابتداء میں ہندوتوا عناصر کو انتخابات میں اُتارا گیا تاکہ رام مندر کی تعمیر اور دیگر کمیونل موضوعات پر سماج کو تقسیم کیا جائے لیکن رائے دہندوں نے جذباتی نعروں میں دلچسپی نہیں دکھائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کے پاس انتخابی موضوعات کا جیسے قحط پڑ گیا ہو۔ انتخابی مہم کے دوران پیش آئے بعض واقعات بھی ان پارٹیوں کیلئے بدشگونی تصور کئے جارہے ہیں۔ امیت شاہ کی رتھ گاڑی برقی تار سے ٹکرا گئی لیکن وہ محفوظ رہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کے ہیلی کاپٹر میں دو مرتبہ تکنیکی خرابی آئی اور ان کے فرزند کے ٹی آر انتخابی مہم کے دوران حادثہ میں بال بال بچ گئے۔ اس طرح کے واقعات سیاسی پنڈتوں کے نزدیک بدشگونی ہیں۔
ایک طرف نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی عوام سے ووٹ کی بھیک مانگ رہی ہے لیکن نوٹ بندی کے سات سال کی تکمیل نے عوام کے زخموں کو تازہ کردیا ہے۔ نریندر مودی نے ملک میں بلیک منی کے خاتمہ کے نام پر اچانک نوٹ بندی کا اعلان کیا اور 500 اور 1000 کے کرنسی نوٹ کا چلن ختم کردیا گیا۔ مودی کا اعلان عوام پر ایک مصیبت کی طرح ٹوٹ پڑا اور شاہی فرمان کی طرح مودی نے عوام کو کوئی مہلت تک نہیں دی۔ نوٹ بندی کیا ہوئی لوگ قطاروں میں کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کیلئے کھڑے ہوگئے اور ان قطاروں نے کئی افراد کی جان لے لی۔ یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا اور ملک کی معیشت کو کاری ضرب لگی۔ نوٹ بندی کے 7 سال مکمل ہوگئے لیکن آج بھی غریب اور متوسط طبقات کیلئے وہ سیاہ دن بھلائے نہیں جاتے جب مودی نے ان کی پونجی کو لوٹ لیا تھا۔ نریندر مودی آج تک یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ نوٹ بندی کے ذریعہ بلیک منی پر کس حد تک قابو پایا گیا۔ مودی نے دراصل نوٹ بندی کے ذریعہ اپنے قریبی صنعتی گھرانوں کو بلیک منی کو وہائیٹ منی میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ نوٹ بندی نے کئی صنعتوں کو زوال کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور غریب اور متوسط طبقات آج تک بھی سنبھل نہیں پائے ہیں۔ نریندر مودی موجودہ وقت کے شہنشاہ کی طرح ہیں اور ان کا ہر فیصلہ شاہی فرمان کی حیثیت رکھتا ہے۔گذشتہ 9 برسوں میں اس شہنشاہ نے عوام کی بھلائی سے زیادہ عوام پر مصیبت کے فرمان جاری کئے ہیں۔ اسی دوران 5 ریاستوں کے چناوی نتائج یعنی 3 ڈسمبر کے دوسرے ہی دن 4 ڈسمبر سے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کی کامیابی کا جشن پارلیمنٹ میں منانا چاہتے ہیں، انہیں شاید پانچ ریاستوں میں عوامی رجحان کا صحیح طور پر اندازہ نہیں ہوا ہے۔ پارلیمنٹ سیشن آتے ہی عوام کے دلوں کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے کیونکہ پتہ نہیں مودی کونسا نیا قانون پارلیمنٹ میں منظور کریں گے۔ پارلیمنٹ کا مجوزہ سیشن ہنگامہ خیز ثابت ہوسکتا ہے اور پانچ ریاستوں کے نتائج کا اثر سیشن کی کارروائی پر دیکھا جائے گا۔ اسمبلی نتائج کے ساتھ ہی سیاسی پارٹیاں لوک سبھا چناؤ کی مہم شروع کردیں گی۔ لوک سبھا چناؤ کیلئے بی جے پی کے پاس اہم انتخابی موضوع رام مندر کا افتتاح ہے جو 22 ڈسمبر کو مقرر ہے۔ نریندر مودی لوک سبھا چناؤ میں ہندوؤں سے یہ دعویٰ ضرور کرسکتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف سپریم کورٹ سے مندر کے حق میں فیصلہ حاصل کیا بلکہ ایک عالیشان رام مندر بابری مسجد کے مقام پر تعمیر کرتے ہوئے سنگھ پریوار کے دیرینہ خواب کی تکمیل کی ہے۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں کو یقین ہوچلا ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں رام مندر کی تعمیر اہم سیاسی موضوع رہے گا اور بی جے پی کو توقع کے مطابق فائدہ بھی حاصل ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’ انڈیا اتحاد‘ اسمبلی نتائج کے بعد جارحانہ فرقہ پرست ایجنڈہ سے نمٹنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرے گا۔وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
پیمانہ بھر چلا ہے محبت کے صبر کا
جھوٹی تسلیوں سے سنبھالا نہ جائے گا