جھوٹ وہ بولے تو سچائی نظر آتی ہے

   

الیکشن اور مودی… جملہ بازی اور خلاف ورز یاں
رجنی کانت کو ایوارڈ … انتخابی حربہ

رشیدالدین
الیکشن میں کامیابی کون نہیں چاہتا۔ ہر سنجیدہ امیدوار بھلے وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو اسے کامیابی کے خواب ضرور آتے ہیں اور وہ رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ امیدوار اور پارٹی جس قدر بڑی ہو ، رائے دہندوں کو لبھانے کی کوشش بھی اسی انداز کی ہوتی ہے۔ صحافتی کیریئر میں ہم نے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے نت نئے انداز دیکھے ہیں لیکن موجودہ بی جے پی اور اس کی قیادت کا انداز سب سے ہٹ کر اور نرالا ہے۔ مودی اور امیت شاہ نے الیکشن کا معنی اور مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔ ملک کی تمام ریاستوں میں بھگوا پرچم اور ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھنے والوں میں جھوٹ کو انتخابی مہم کی بنیاد بنادیا ہے۔ علاقہ اور عوام کے اعتبار سے رنگ بدلنا اور حالات و ماحول کے رنگ میں رنگ جانا کوئی ان سے سیکھے۔ رنگ بدلنے کے معاملہ میں عام طور پر ایک جانور کی مثال پیش کی جاتی ہے لیکن اب اس کی جگہ سیاسی حلقوں میں مودی اور امیت شاہ کا نام لیا جارہا ہے ۔ درختوں پر اپنا رنگ تبدیل کرتے ہوئے اپنی حفاظت کرنے والا جانور بھی بی جے پی قیادت کو دیکھ کر شرما جائے اور شاگردی میں قبول کرنے کی درخواست کرے۔ جھوٹ کی عمر زیادہ نہیں ہوتی اور کسی نہ کسی موڑ پر زوال اس کا انجام ہوتا ہے لیکن جب تک بھی جھوٹ کا سکہ چلے اس کے طرفدار خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں۔ 2014 ہو کہ 2019 ء کے عام انتخابات دونوں میں بی جے پی کی کامیابی کسی کارنامہ یا پھر عوامی خدمت کا نتیجہ نہیں بلکہ جھوٹ پر مبنی مہم اور الفاظ کی جادوگری کا نتیجہ رہی ۔ بی جے پی کی خوش قسمتی کہیں یا پھر عوام کی بدقسمتی کہ دونوں صورتوں میں نقصان تو عوام کا ہی ہوا۔ مودی ۔امیت شاہ کی دلفریب باتوں اور وعدوں پر بھروسہ کرنے کا انجام مسائل میں اضافہ کی صورت میں نمودار ہوا۔ تقاریر کے ذریعہ عوام پر کچھ ایسا جادو کیا گیا کہ مشکلات اور مسائل کے باوجود عوام جھوٹ پر اعتبار کرنے تیار دکھائی دے رہے ہیں۔ مرکز میں دوسری مرتبہ اقتدار کے علاوہ ریاستوں میں وہی جذباتی مئے نوشی اور الفاظ کی جادوگری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔ انتخابی مہم کہاں چلائی جاتی ہے ؟ ظاہر ہے ہر باشعور ہندوستانی کا یہی جواب ہوگا کہ جس ریاست یا حلقہ میں چناؤ ہو مہم بھی وہیں چلائی جائے گی۔ یہ تو رہی اصول اور قاعدہ کی بات لیکن نریندر مودی ۔امیت شاہ جوڑی نے انتخابی مہم کا مفہوم بدل دیا اور بیرون ملک جاکر بھی ہندوستانی انتخابات کی مہم کا نیا رجحان ایجاد کیا ہے۔

الیکشن بھلے ہی ریاستوں میں ہو لیکن ہندوستان بھر میں نت نئے انداز سے بی جے پی مہم چلا رہی ہے ۔ مودی اور امیت شاہ کا ہر قدم انتخابی فائدہ کی غرض سے اٹھایا جاتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں مرکزی حکومت کے فیصلوں کے ذریعہ بھی رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ انتخابی مہم میں پارٹی قائدین حصہ لیتے ہیں لیکن بی جے پی نے بیرونی سربراہان مملکت کے ذریعہ بھی انتخابی مہم چلائی ہے ۔ مغربی بنگال اور آسام میں بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو خوش کرنے مودی بنگلہ دیش پہنچ گئے جبکہ مسلم اقلیت اور سیکولر ووٹرس کو متاثر کرنے عمران خان سے لو لیٹرس کا تبادلہ کرتے ہوئے امن کا نعرہ لگایا۔ بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو دیمک کہنے والے اور انہیں ملک بدر کرنے سی اے اے قانون پر عمل آوری کا اعلان کرنے والے مودی بنگلہ دیش کی آزادی کے مجاہد بن گئے ۔ سابق میں دورہ بنگلہ دیش کے وقت مودی کو شائد جیل کی سزا یاد نہیں رہی اور نہ ہی ہندوستانیوں کو کبھی اس بارے میں بتایا کہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کیلئے جیل جاچکے ہیں۔ مودی کو ہر بات موقع اور محل کے اعتبار سے یاد آتی ہے ۔ بنگلہ دیش کے قیام کی جدوجہد اندرا گاندھی دور حکومت کی بات ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستانی جیلوں کا ریکارڈ تو محفوظ ہوگا ، لہذا مودی کس جیل میں کب اور کتنے دن رہے اس کی تفصیلات سے عوام کو واقف کرایا جائے ۔ کوئی عجب نہیں کہ آئندہ کسی موقع پر مودی انگریزوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے کا دعویٰ کردیں۔ گودی میڈیا کی ہمت نہیں کہ مودی کے دعویٰ پر سوال کرے۔ اپوزیشن بھی اس قدر کمزور ہے کہ کسی نے آر ٹی آئی کے تحت وزارت داخلہ سے سوال نہیں کیا کہ بنگلہ دیش کے قیام کیلئے مودی کب اور کونسی جیل میں رہے ۔ جیسا ہم نے پہلے کہا کہ انتخابی مہم ہو تو ہر طرح کا جھوٹ چل جاتا ہے۔ جس طرح ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کے اعلان کو کامیابی کے بعد ’’انتخابی جملہ‘‘ کہہ کر ٹال دیا گیا ۔ اسی طرح بنگلہ دیش کیلئے جیل جانے کا دعویٰ بھی الیکشن جملہ قرار دیا جائے گا ۔ انتخابی جملہ بازی میں مودی ۔ امیت شاہ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ ملک کے عوام بی جے پی کی قیادت کی جملہ بازی پر اعتبار کر رہے ہیں ، حالانکہ گزشتہ 6 برسوں میں غریب اور متوسط طبقات کی زندگی اجیرن بن چکی ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کی سنچری مکمل ہونے کو ہے اور مہنگائی و بیروزگاری عروج پر ہے۔ تازہ ترین انتخابی حربہ کے تحت مرکز نے ٹامل فلموں کے سوپر اسٹار رجنی کانت کو اعلیٰ ترین باوقار دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا ہے ۔ رجنی کانت کو اس اعزاز سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ایوارڈ کے اعلان کی ٹائمنگ پر سوال ضرور کھڑے ہوں گے ۔ ٹاملناڈو میں انتخابی مہم کے دوران مرکز کا یہ اعلان بی جے پی اور انا ڈی ایم کے کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کی چال نہیں تو اور کیا ہے۔ رجنی کانت علحدہ سیاسی جماعت قائم کرنے والے تھے لیکن طبیعت بگڑنے پر انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کردیا جس کے بعد اس ایوارڈ کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔ انتخابی شیڈول سے قبل یا پھر انتخابی نتائج کے بعد اس کا اعلان کیا جاسکتا تھا۔ الیکشن کمیشن کو کسی شکایت کا انتظار کئے بغیر از خود کارروائی کرنی چاہئے ۔ الیکشن کمیشن کی آزادی اور غیر جانبداری عوام کی نظروں میں مشکوک ہوچکی ہے ۔ ٹی این سیشن کا وہ دور آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے جو اکثر کہا کرتے تھے کہ میں الیکشن کمشنر آف انڈیا ہوں نہ کہ الیکشن کمشنر گورنمنٹ آف انڈیا۔ 2014 ء کے بعد سے الیکشن کمیشن مرکز کے ایک ماتحت ادارہ میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کا کوئی تصور باقی نہیں رہا ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے الیکشن کمیشن آف انڈیا تبدیل ہوکر الیکشن کمیشن آف ناگپور بن چکا ہے ۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کی تکمیل کمیشن کی اولین ترجیح بن چکی ہے ۔ ضابطہ اخلاق کے سلسلہ میں کمیشن نے اپوزیشن کے خلاف تو کارروائیاں کیں لیکن بی جے پی کے معاملہ میں برا مت سنو ، برا مت دیکھو اور برا مت کہو کا عملی مظاہرہ پیش کر رہا ہے ۔ بی جے پی کے معاملہ میں کمیشن کی آنکھ ، کان اور زبان بند ہیں۔ بنگال میں 8 مرحلوں میں رائے دہی کا فیصلہ کس کے اشارہ پر کیا گیا اور پس پردہ مقاصد کیا ہیں، اس بارے میں کہنے کی ضرورت نہیں۔

بنگال اور آسام میں دوسرے مرحلہ کی رائے دہی مکمل ہوچکی ہے۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی نے اپنی ساری طاقت جھونک دی ہے اور رائے دہی کے رجحانات کے مطابق بنگال میں ممتا بنرجی کا موقف کسی قدر کمزور ہے۔ بی جے پی کی یلغار سے تنہا ممتا بنرجی کا مقابلہ کرنا آسان دکھائی نہیں دیتا۔ منصوبہ بند انداز میں 8 مراحل میں رائے دہی کا فیصلہ ممتا بنرجی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کی ٹھوس حکمت عملی کے سوا کچھ نہیں جس میں بی جے پی کے ساتھ الیکشن کمیشن اور مرکزی فورسس کی صاف ملی بھگت دکھائی دے رہی ہے۔ دونوں مراحل میں ممتا نے بڑے پیمانہ پر دھاندلیوں کا الزام عائد کیا ہے اور نریندر مودی نے ممتا بنرجی اور ان کے حامیوں کے حوصلوں کو پست کرنے کیلئے مائینڈ گیم کھیلا ہے۔ انتخابات کے دوران ممتا بنرجی نے اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کا نعرہ لگایا ۔ الیکشن سے قبل یہ تجویز قابل غور تھی لیکن انتخابی مہم کے دوران اس طرح کی باتیں ممتا بنرجی کے موقف کی کمزوری کو ظاہر کر رہی ہے ۔ بنگال میں بایاں بازو اور کانگریس انتخابی میدان میں ہیں، ایسے میں بی جے پی کے خلاف اتحاد کی اپیل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ الیکشن سے قبل یا پھر نتائج کے بعد اپوزیشن اتحاد کی مساعی کی جاسکتی ہے ۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ بنگال میں رائے دہی کے باقی 6 مراحل ممتا بنرجی کے لئے انتہائی صبر آزما اور ایسڈ ٹسٹ ثابت ہوں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہیل چیر دیدی کو رائے دہندوں کی ہمدردی کب تک جاری رہے گی۔ منظر بھوپالی نے انتخابی پس منظر میں کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
جھوٹ وہ بولے تو سچائی نظر آتی ہے
اس کے ظلموں میں مسیحائی نظر آتی ہے